ایران: مظاہروں کے تناظر میں مزید دو افراد کو پھانسی
7 جنوری 2023
محمد کرامی اور محمد حسینی کو دی گئی پھانسی کے بعد ایران میں ایسے افراد کی تعداد چار ہو گئی ہے جنہیں احتجاجی مظاہروں کے تناظر میں سزائے موت دی گئی ہے۔ ایران آہنی ہاتھوں کے ذریعے احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کی کوشش ہے۔
اشتہار
ایران نے احتجاجی مظاہروں کے دوران ایک سکیورٹی اہلکار کے مبینہ قتل کے الزام میں دو افراد کو پھانسی دے دی ہے۔ ایران میں مظاہروں کا یہ سلسلہ گزشتہ برس ستمبر میں ایک 22 سالہ کرد ایرانی لڑکی مہسا امینی کی پولیس کی زیر حراست موت کے بعد شروع ہوا تھا۔ مہسا امینی کو مناسب طور پر اسکارف نہ لینے کے الزام میں ایران کی اخلاقی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
آج ہفتہ سات جنوری کو جن دو ایرانی افراد کو پھانسی دی گئی ہے، ایرانی عدلیہ کی طرف سے ان کا نام محمد کرامی اور محمد حسینی بتایا گیا ہے۔ ان پر ایرانی پاسداران انقلاب کی رضاکار فورس کے ایک رکن روح اللہ عجمیان کے قتل کا الزام تھا۔
ایرانی مظاہرین کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔
تصویر: UGC/AFP
6 تصاویر1 | 6
کرامی اور حسینی کے علاوہ ایرانی عدالت نے تین دیگر افراد کو اسی مقدمے میں سزائے موت جبکہ 11 کو جیل کی سزا سنائی ہے۔ اس سے قبل بھی مظاہروں کے تناظر میں ہی دو افراد کو دسمبر میں پھانسی دے دی گئی تھی جس پر عالمی سطح پر ردعمل سامنے آیا تھا۔
ایران کی عدالتی فیصلے تنقید کی زد میں
ایرانی عدالتی ٹریبونل مقدمے کا سامنا کرنے والے افراد کو نہ تو اپنی مرضی کے وکیل مقرر کرنے کا اختیار دیتے ہیں اور نہ ہی انہیں ان شواہد کے بارے میں مطلع کیا جاتا ہے جو ان کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔
ایرانی سرکاری ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی ایک فوٹیج میں کرامی اور حسینی کو حملے کے بارے میں بات چیت کرتے دکھایا گیا تھا تاہم انسانی حقوق کے کارکن ایرانی نشریاتی ادارے پر الزام کرتے ہیں کہ وہ کئی سالوں سے سنسر شدہ اعترافی بیان جاری کرتا آ رہا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کہہ چکی ہے کہ یہ ٹرائل بامعنی عدالتی کارروائی سے کسی طرح کی کوئی مماثلت نہیں رکھتے۔
گزشتہ برس ستمبر سے شروع ہونے والے ان مظاہروں کے تناظر میں عدالتیں اب تک 14 افراد کو سزائے موت سنا چکی ہیں۔ جن میں سے اب تک چار افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔ مزید دو افراد کی سزائے موت کی توثیق ملک کی سپریم کورٹ کر چکی ہے، چھ افراد نئے ٹرائل کے منتظر ہیں جبکہ دو دیگر کے پاس ابھی اپیل کا حق باقی ہے۔