تمیمی کے وکیل نے اس نوجوان فسلطینی لڑکی سے دوران تفتیش جنسی کنایوں سمیت استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈوں کی اسرائیل فوج سے شکایت کی ہے۔
اشتہار
اس ویڈیو میں تفتیش کاروں کو تمیمی کے ’’سنہری بالوں، نیلی آنکھوں اور گوری رنگت‘‘ پر رائے زنی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ تمیمی کے وکیل نے اس نوجوان فلسطینی لڑکی سے تفتیش کے دوران جنسی کنایوں اور دیگر ہتھکنڈوں کے استعمال کی شکایت کی ہے۔
فلسطینی نوجوان لڑکی احد تمیمی ایک اسرائیلی فوجی پر حملہ کرنے کے الزام میں اس وقت اسرائیلی جیل میں آٹھ ماہ قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو فوٹیج میں دو اسرائیلی افسران کو تمیمی سے تفتیش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس تفتیش کے آغاز میں اُس وقت 16 سالہ احد تمیمی سے پوچھا جا رہا ہے کہ آیا اُس نے وکیل سے بات کی ہے یا نہیں۔ اس کے جواب میں وہ اپنا سر ہلاتی ہے۔ اس کے بعد وہ خاموش رہتی ہے اور اپنا نام یا دیگر کسی سوال کا جواب نہیں دیتی۔ ان میں سے ایک تفتیشی افسر تمیمی کو دھمکی دیتا ہے کہ اگر اس نے تعاون نہ کیا تو اس کے رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ یہ افسر تمیمی کی گوری رنگت اور آنکھوں پر تبصرہ کرتے بھی سنا جا سکتا ہے۔
اس ویڈیو میں نظر آنے تفتیش کاروں میں سے ایک کی شناخت ایک پولیس افسر کے طور پر جبکہ دوسرے کی اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس کے ایک افسر کے طور پر ہوئی ہے۔
احد تمیمی کے والد بسام نے مغربی کنارے کے شہر راملہ میں صحافیوں کو بتایا، ’’تفتیش کے یہ ادوار اُس پر کئی طرح کے جسمانی اور نفسیاتی دباؤ ڈالے جانے کے بعد منعقد کیے گئے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ احد تمیمی کو تنہائی میں رکھا گیا اور اسے مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا رہا۔ بسام کے مطابق، ’’اسے طویل دورانیے تک نیند سے محروم رکھا گیا۔ تفتیش کے اختتامی مرحلے سے قبل اسے 34 گھنٹے سے زائد وقت تک مسلسل جاگتا رکھا گیا۔‘‘
انسانی حقوق کے ایک اسرائیلی کارکن جوناتھن پولاک کے مطابق تفتیش پر مبنی یہ ویڈیو دراصل مقدمے کی اُس فائل کا حصہ تھی جو تمیمی پر فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد ان کے دفاع کے لیے داخل کی گئی۔ پولاک تمیمی کے لیے قانونی کارروائی کی مشاورت کا حصہ ہیں۔
پولاک کے مطابق تمیمی کے وکیل نے اسرائیل فوج کے پاس ایک شکایت درج کرائی ہے جس میں تمیمی کو بظاہر دی جانے والی دھمکیوں، دباؤ اور جنسی کنایوں کے استعمال کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ شکایت وزارت انصاف کو پیش کر دی گئی ہے اور اس معاملے کی مکمل جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔