1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'احرار الہند' گروپ کون ہے

شکور رحیم اسلام آباد4 مارچ 2014

احرار الہند کے ترجمان نے زرائع ابلاغ کے دفاتر میں فون کرکہ کہا ہے کہ ان کا گروہ شریعت کے نفاذ تک اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا۔

تصویر: Reuters

پاکستانی دارلحکومت اسلام آباد میں گزشتہ روز ضلع کچہری پر خود کش حملوں کی ذمہ داری ایک غیر معروف شدت پسند گروپ 'احرار الہند' کی جانب سے قبول کیے جانے کے بعد یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ حکومت امن کے لئے شدت پسندوں کے کس گروہ سے مذاکرات کررہی ہے؟

احرار الہند کے ترجمان نے زرائع ابلاغ کے دفاتر میں فون کرکہ کہا ہے کہ ان کا گروہ شریعت کے نفاذ تک اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا۔

شدت پسند تنظیموں کی سر گرمیوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ احرار الہند بھی ان متعدد شدت پسند گروپوں میں سے ایک ہے جو ماضی میں کسی نہ کسی شکل میں کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ تجزیہ کار عامر رانا کے مطابق ایسے چھوٹے چھوٹے گروہ مختلف ناموں سے اپنی کاروائیاں کرتے ہیں اور کاروائی کی نوعیت اور ضرورت کے اعتبار سے نام بدلتے رہتے ہیں۔

دارالحکومت بھی محفوظ نہیںتصویر: AP

احرار الہند کا نام گزشتہ ماہ نو فروری کو اس وقت پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا تھا جب اس شدت پسند گروہ کے ترجمان اسد منصور نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ملک میں شریعت کے نفاذ سے کم کسی صورت راضی نہیں ہوں گے۔ اس کے چند ہی دنوں بعد ترجمان نے چودہ فروری کو ایک اور بیان میں کہا تھا کہ یہ خیال مضحکہ خیز ہے کہ ملک میں شریعت کے نفاذ سے ہٹ کر کسی معاہدے سے امن آئے گا۔

پاکستان کے ایک انگریزی اخبار "ڈان" میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس شدت پسند تنظیم کی بنیاد پنجاب کے ضلع اٹک کے علاقے حضرو سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں نے رکھی ہے۔

کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد ایک تحریری بیان کے زریعے اسلام آباد حملے سے لا تعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔ تاہم ارکان پارلیمان سمیت بہت سے حلقے طالبان کی اس تردید سے مطمئن نہیں۔ حزب اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما سینیٹر زاہد خان کا کہنا ہے،

"اگر یہ (ٹی ٹی پی) نے نہیں کیا تو پھر ان سے ڈائیلاگ کرنا فضول ہے۔ پھر تو ڈائیلاگ ان لوگوں سے کرو جو کل ایک نئی تنظیم احرار الہند نکل آئی ہے۔ لہذا یہ چیزیں تو پہلے سے موجود ہیں یہ شکلیں بلتے رہتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں جتنی کالعدم تنظیمیں ہیں وہ کسی اور نام سے کام کرتی ہیں جیسے لشکر طیبہ پر پابندی لگی ابھی بھی حافظ سعید اس کے سربراہ ہیں۔ جسطرح جیش محمد ہے۔ ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ملک ایک ایسی دلدل کی طرف جا چکا ہے کہ اس سے نکلنے کے لئے ٹھوس فیصلہ کرنا ہوگا"۔

حکومت آخر کس طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے؟تصویر: picture-alliance/AP Photo

تجزیہ کاروں کےمطابق اس وقت پاکستان میں پچاس سے زائد شدت پسند گروہ متحرک ہیں جن میں سے 40 قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے کام ر ہے ہیں۔

اس صورتحال نے بظاہر حکومت کو انتخاب کے مسئلے سے دوچار کر دیا ہے کہ وہ کس گروہ سے بات کرے؟ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شگفتہ جمانی کا کہنا ہے کہ حکومت مذاکرات کا ڈھونگ صرف وقت گزاری کے لئے کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا ,"میں نہیں سمھجتی کہ یہ ان لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن لیں گے۔ یہ صرف لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں کہ جی ہم ڈائیلاگ کر رہے ہیں۔ ڈائیلاگ کرتے کرتے بھی سات آٹھ ماہ گزر چکے ہیں لیکن کوئی بھی حل نظر نہیں آ رہا۔”

دریں اثناء طالبان سے مذاکرات کے لئے حکومتی کمیٹی کے ارکان نے منگل کے روز وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک مختصرسرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کے ارکان نے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں وزیر اعظم کو تجاویز پیش کیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پائیدار اور مستقل امن کا قیام حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کے لئے ہر سطح پر کو ششیں جاری رہیں گی۔ اس ملا قات سے قبل حکومتی کمیٹی کے اجلاس میں ٹی ٹی پی کے فائر بندی کے اعلان ،خیبر ایجنسی اور اسلام آباد میں دہشتگردی کے واقعات کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی ارکان کے مطابق جنگ بندی کے اعلان کے بعد اس طرح کے واقعات کا جاری رہنا قیام امن کے لئے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچائے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں