احسان اللہ احسان کا دعویٰ: قوم پرست حلقوں کو گہری تشویش
عبدالستار، اسلام آباد
22 جون 2021
سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کے حوالے سے جماعت الاحرار اور تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے بیان نے پاکستان کے پختون قوم پرستوں اور سیاسی کارکنوں کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
اشتہار
اس کے برعکس حکومت نے احسان اللہ احسان کے بیان کو مضحکہ خیز اور حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ عثمان کاکڑ اپنے گھر کے غسل خانے میں کچھ دن پہلے پھسل کر گر گئے تھے، جس کی وجہ سے ان کے سر پر چوٹ آئی تھی اور انہیں کوئٹہ کے ایک اسپتال میں لے جایا گیا تھا۔ بعد ازاں انہیں کراچی لے جایا گیا، جہاں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ میڈیا رپورٹوں نے پوسٹ مارٹم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں تھا جبکہ ان کی موت کا سبب کچھ دیگر ٹیسٹوں کے بعد معلوم ہو سکےگا۔
پاکستان کے پختون قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ عثمان کاکڑ کی موت طبعی نہیں تھی۔ اس حوالے سے سب سے پہلے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایک ٹویٹ کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ عثمان کاکڑ کے ڈاکٹروں سے رابطے میں تھے جن کا خیال ہے کہ کاکڑ کے سر پر اتنی شدید چوٹ محض گرنے سے نہیں لگ سکتی تھی۔ کل پیر کے روز پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا میں بھی کچھ اراکین نے ان دھمکیوں اور خطرات سے ایوان کو آگاہ کیا تھا، جو عثمان کاکڑ کی جان کو لاحق تھے اور اسی لیے ان کی موت کی پارلیمانی چھان بین کی جانا چاہیے۔
احسان اللہ احسان کی فیس بک پوسٹ
ان شکوک و شبہات کو اس وقت مزید تقویت ملی، جب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے کسی صحافی کی پوسٹ پر جواب دیتے ہوئے فیس بک پر کہا کہ عثمان کاکڑ کی موت حادثاتی نہیں تھی بلکہ انہیں قتل کیا گیا ہے اور یہ کہ ماضی میں خود احسان کو بھی ایک ہٹ لسٹ دی گئی تھی، جس میں عثمان کاکڑ کا نام بھی شامل تھا۔
احسان اللہ احسان کے بقول اس مبینہ لسٹ میں عثمان کاکڑ کے علاوہ ڈاکٹر سید عالم محسود اور معروف پختون دانشور اور سیاست دان افرسیاب خٹک کے نام بھی شامل تھے۔ احسان اللہ احسان کے اس دعوے کی وجہ سے سیاسی کارکنوں اور قوم پرست پختون سیاستدانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ عثمان کاکڑ کی موت کی مکمل تحقیقات کرائی جائے۔
اس بارے میں ڈاکٹر سید عالم محسود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے کچھ ملکی اور غیر ملکی صحافیوں سے اس بات کی تصدیق کرائی ہے کہ یہ اکاؤنٹ احسان اللہ احسان کا ہے بھی یا نہیں۔ انہوں نے تصدیق کی ہے کہ یہ اکاؤنٹ ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان ہی کا ہے۔ عثمان کاکڑ کی زندگی کو خطرات لاحق تھے اور انہوں نے سینیٹ میں ان خطرات کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ جس نوعیت کے خطرات انہیں لاحق تھے، ویسے ہی مجھے بھی لاحق ہیں۔ مجھے بھی تقریباﹰ 13 ماہ سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔ میں نے اپنی سرگرمیاں بہت محدود کردی ہیں۔ میری پروفیشنل زندگی بالکل تباہ ہوگئی ہے۔ میں میڈیکل پریکٹس بھی نہیں کر سکتا اور گھر تک محدود ہو گیا ہوں۔ میں نے اپنی سکیورٹی کے لیے پرائیویٹ گارڈز رکھے ہوئے ہیں، جن کو میں بھاری تنخواہ ادا کرتا ہوں۔ اگر حکومت مجھے سکیورٹی دے بھی دے، تو مجھے یہ یقین نہیں کہ وہ کس طرح کی سکیورٹی ہوگی۔‘‘
پاکستان میں حالیہ دنوں کے دوران طالبان مخالف پانچ ایسے بلاگرز پرسرار طور پر لاپتہ ہو گئے، جو انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ لاپتہ ہونے والی یہ شخصیات کون ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
ثمر عباس
پاکستانی شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے ثمر عباس سات جنوری بروز ہفتہ اسلام آباد سے لاپتہ ہو گئے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک ثمر عباس انتہا پسندی کے خلاف قائم ’سول پروگریسیو الائنس‘ کے سربراہ ہیں۔ عباس کے ساتھی طالب رضا کے بقول عباس ایک محب وطن شہری ہیں اور وہ صرف اقلیتوں کے حقوق کے حق میں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور یہ کوئی ریاست مخالف رویہ نہیں ہے۔
تصویر: privat
سلمان حیدر
انسانی حقوق کے فعال کارکن پروفیسر سلمان حیدر چھ جنوری بروز جمعہ اسلام آباد سے لاپتہ ہوئے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم سلمان حیدر انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن ہیں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرنے کے علاوہ لاپتہ افراد کے بارے میں بھی مہم چلا رہے ہیں۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ ایک کالم نویس اور تھیٹر آرٹسٹ کی شناخت بھی رکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
احمد وقاص گورایہ
سوشل میڈیا پر فعال احمد وقاص گورایہ (دائیں) چار جنوری کو لاپتہ ہوئے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ وقاص سے رابطہ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہالینڈ میں رہنے والے وقاص چھٹیوں پر پاکستان گئے تھے کہ لاپتہ ہو گئے۔ سائبر سکیورٹی تھنک ٹینک ’بائیٹس فار آل‘ کے سربراہ شہزاد احمد کے مطابق لاپتہ ہونے والے ان سرگرم سماجی کارکنوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر خوف پیدا ہو چکا ہے۔
عاصم سعید
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ عاصم سعید بھی چار جنوری کو لاپتہ ہوئے۔ سنگاپور سے پاکستان جانے والے عاصم سعید کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ اس پیشرفت پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے اداروں کے علاوہ امریکا نے بھی یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
احمد رضا نصیر
سوشل میڈیا پر بہت فعال احمد رضا نصیر سات جنوری کو اچانک لاپتہ ہو گئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں پولیو کے مرض کے جسمانی اثرات کا بھی سامنا ہے۔ ان لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کے لیے اسلام آباد اور کراچی میں احتجاجی ریلیاں بھی منعقد کی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
5 تصاویر1 | 5
ڈاکٹر سید عالم محسود کا مزید کہنا تھا کہ وہ دھمکیوں سے ڈریں گے نہیں، ''ہم کوئی غیر آئینی بات نہیں کرتے۔ ہم پختون قوم کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ آئین کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں۔ جمہوریت کی سربلندی کی بات کرتے ہیں اور موت کے خوف سے اس طرح کی باتیں کرنا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
اشتہار
جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عثمان کاکڑ کی موت کی پوری چھان بین ہونا چاہیے جبکہ ڈاکٹر سید عالم اور افراسیاب خٹک کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جانا چاہیے۔ عثمان کاکڑ کی فیملی متاثرہ فریق ہے، تحقیقات ایسی ہونا چاہیے، جس سے اس خاندان کو بھی تسلی ہو۔ میرے خیال میں جوڈیشل انکوائری بہتر ہو گی۔‘‘
احسان اللہ احسان کے بیان کے بعد پختون قوم پرست حلقے عثمان کاکڑ کی موت میں ریاستی اداروں کو ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم حکمران جماعت پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوس اور شرم کی بات ہے کہ پختون قوم پرست ٹی ٹی پی کے ایک دہشت گرد کے بیان کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں اور اس پر یقین کر رہے ہیں جب کہ وہ اپنے ملک کے اداروں پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے فوری بعد پاکستانی فوج کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس کے پیچھے غیر ملکی قوتیں ہیں۔
نوبل امن انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی برسوں بعد ہفتہ اکتیس مارچ کو واپس اپنے آبائی شہر سوات پہنچ گئیں، جہاں قریب چھ برس قبل پاکستانی طالبان نے ایک حملے میں انہیں زخمی کر دیا تھا۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
پانچ برس کا طویل انتظار
ملالہ یوسف زئی ہفتہ کے روز صبح ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنے آبائی علاقے سوات پہنچیں۔ اس موقع پر اُن کے والد ضیاءالدین یوسفزئی،والدہ تورپیکئی، دونوں بھائی اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب بھی اُن کے ہمراہ تھیں۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
پرانا کمرہ اور پرانی یادیں
سن 2012 سے برطانیہ میں مقیم ملالہ یوسف زئی ساڑھے پانچ سال بعد جب آبائی شہر میں واقع اپنے گھر پہنچیں تو آبدیدہ ہو گئیں۔ ملالہ کے خاندانی ذرائع کے مطابق ملالہ کے والدین اور بھائی بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے۔ ملالہ یوسف زئی نے کچھ دیر کے لیے اپنے کمرے میں قیام بھی کیا۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
اسکول کا دورہ اور پرانی سہیلیوں سے ملاقات
سوات پہنچنے پر مقامی لوگوں نے ملالہ یوسف زئی کا پرتپاک استقبال کیا اور اُن کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ اپنے آبائی گھر میں کچھ دیر قیام کے بعد ملالہ اپنے اسکول بھی گئیں، جہاں اپنی سہیلیوں سے ملاقات کی اور ان سے باتیں کیں۔ ملالہ کے دورے کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ میڈیا کو بھی دور رکھا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
’واپس ضرور آؤں گی‘
ملالہ اپنے مختصر دورہ سوات کے دوران کیڈٹ کالج بھی گئیں، جہاں پر کالج کے پرنسپل اور دیگر اسٹاف نے ان کا بھر پور استقبال کیا۔ ملالہ یوسف زئی نے کیڈٹ کالج میں طلباء سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے طلباء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا سوات آنے کا پختہ ارادہ ہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس سوات آئیں گی، ’’اس وادی جیسی خوبصورت ترین وادی دنیا میں کہیں بھی نہیں، سوات آکر بہت خوشی محسوس کررہی ہوں‘‘۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
’اپنی ثقافت پر فخر ہے‘
ملالہ یوسف زئی نے کیڈٹ کالج کی وزیٹر بک میں اپنے پیغام میں لکھا کہ ساڑھے پانچ سال بعد اپنے پہلے دورہ سوات کے موقع پر وہ بہت خوش ہیں، ’’ مجھے اپنی سرزمین اور یہاں کی ثقافت پر فخر ہے، کیڈٹ کالج بہت ہی خوبصورت ہے اور میں کالج کے پرنسپل اور اسٹاف کی انتہائی مشکور ہوں۔‘‘
تصویر: DW/Adnan Bacha
’ملالہ کے منتظر تھے‘
لوگوں کی اکثریت ملالہ کی پاکستان آمد سے نہ صرف خوش ہے بلکہ انہیں نیک خواہشات کے ساتھ خوش آمدید بھی کہہ رہی ہے۔ تاہم دوسری طرف کچھ حلقے ملالہ کے دورہ سوات کو بھی تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ سماجی کارکن ڈاکٹر جواد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں ملالہ پر فخر ہے، ملالہ کی جدوجہد نے یہاں پر بچیوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا کی۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
ہمت نہیں ہاری
ملالہ یوسفزئی کو 2012ء میں سوات ہی میں تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں نے ایک مسلح حملے کے دوران سر میں گولی مار کر زخمی کر دیا تھا اور اس حملے کے چند روز بعد ہی انہیں علاج کے لیے برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
ہمت و بہادری کی مثال
پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت ملالہ یوسفزئی کو ہمت، بہادری اور پاکستانی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی علامت قرار دیتے ہوئے انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، جس کا کئی دیگر شواہد کے علاوہ ایک ثبوت انہیں دیا جانے والا امن کا نوبل انعام بھی ہے۔
تصویر: Reuters/E. Garrido
8 تصاویر1 | 8
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حساس اداروں کے خلاف اس طرح کے بے بنیاد الزامات قابل مذمت ہیں۔ آج اگر ہم سکون سے سو رہے ہیں، تو یہ ہماری فوج ہے، جس نے ملک میں امن و امان کو بہتر بنایا ہے۔ اب امن و امان کی بہتری کے بعد چونکہ ملک معاشی ترقی کی طرف بڑھا ہے، اس لیے ملک دشمن قوتیں قوم پرستوں اور دیگر عناصر کو ملکی فوج کے خلاف استعمال کر رہی ہیں تاکہ پاکستان میں ایک بار میں انتشار پھیلے اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو۔ ایسے عناصر کو فوج پر الزامات لگاتے ہوئے شرم آنا چاہیے۔‘‘
محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ رجحان بن گیا ہے کہ ہر چیز کا الزام پاکستانی فوج پر لگا دیا جائے۔ انہوں نے کہا، ''کچھ عرصہ پہلے پشاور میں ایک سلنڈر کا دھماکا ہو،ا تو اس پر بھی کچھ قوم پرستوں نے الزام لگایا کہ یہ دھماکا فوج نے کرایا ہے۔ بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ ایک سلنڈر کا دھماکا تھا۔ بالکل اسی طرح عثمان کاکڑ کی موت طبعی لگتی ہے اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں بھی تشدد کے کوئی نشانات نہیں ملے۔ پھر بھی کچھ عناصر اس کا تعلق حساس اداروں سے جوڑ رہے ہیں، جو انتہائی شرمناک ہے اور جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میری رائے میں تو فوج پر بے بنیاد الزامات لگانے والے ایسے عناصر کو کڑی سے کڑی سزا دی جانا چاہیے۔‘‘
سانحہء اے پی ایس پشاور: یاد آج بھی تازہ
سولہ دسمبر سن دو ہزار چودہ کا سورج غروب ہوا تو پاکستان بھر کو سوگوار اور آبدیدہ چھوڑ گیا۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان کے ہاتھوں بچوں کے قتلِ عام کی گزشتہ تین سالوں میں مذمت عالمی سطح پر کی گئی۔
تصویر: DW/F. Khan
اسکول کی دیوار، بربریت کی گواہ
طالبان کی بندوقوں سے نکلی گولیوں نے اسکول کی دیواروں کو بھی چھلنی کر دیا۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
امدادی کارروائیاں
اسکول میں حملے کی اطلاع ملتے ہی پاکستان کی فوج نے بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
اپنے پیاروں کی میت اٹھانا مشکل
ایک شخص امدادی کارکن کے ساتھ بیٹے کا تابوت اٹھاتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
آنسو بھی حوصلہ بھی
آرمی پبلک اسکول حملے میں زخمی ہونے والے ایک طالبِ علم کے رشتہ دار ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
خود محفوظ لیکن ساتھیوں کا غم
ایک طالب علم جسے حفاظت سے باہر نکال لیا گیا تھا، اندر رہ جانے والے اپنے ساتھیوں کے لیے اشکبار تھا۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
علی محمد خان اب نہیں آئے گا
سانحہ پشاور میں طالبان کی گولیوں کا نشانہ بننے والے علی خان کی والدہ کو قرار کیسے آئے۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
سیاہ پٹی اور سرخ گلاب
پاکستان بھر میں بچوں نے گزشتہ برس بازوؤں پر سیاہ پٹی اور ہاتھ میں سرخ گلاب تھام کر طالبان کی بربریت کا شکار ہونے والے اپنے ساتھیوں کی یاد منائی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
دنیا بھر میں احتجاج
نیپال کے دارالحکومت کھٹمندو کی ایک خاتون نے اپنے انداز میں پشاور حملے پر احتجاج کیا۔
تصویر: Reuters/Navesh Chitrakar
بھارتی بچے بھی سوگ میں شامل
بھارت کے شہر متھرا میں اسکول کے بچوں نے سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لیے دعا کی۔
تصویر: Reuters/K. K. Arora
روشن قندیلیں
پاکستان میں سول سوسائٹی اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد آج کے دن ہر سال سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں شمیں روشن کرتے ہیں۔