احسان اللہ احسان کا معاملہ، سپریم کورٹ کیوں خاموش ہے؟
13 مئی 2017معروف قانون دان لطیف آفریدی نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ تو آپ کو چوہدری نثار سے پوچھنا چاہیے کہ ایک ایسا شخص جس نے سینکڑوں افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہو۔ اس کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔ ہماری فوجی عدالتوں نے دہشت گردی میں اعانت کرنے والوں کو پھانسی لگا دی ہے لیکن یہ جو اتنا بڑا دہشت گرد پکڑا گیا ہے، اسے اب تک کیوں بیٹھا کر رکھا ہے۔ اسے پھانسی کیوں نہیں لگائی جارہی۔ ایسے دہشت گردوں کے خلاف فوراً مقدمہ چلنا چاہیے اور ان کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے۔‘‘
آئی ایس پی آر کے مطابق احسان اللہ احسان نے کچھ عرصے پہلے اپنے آپ کو پاکستانی فوج کے حوالے کیا تھا لیکن ٹی ٹی پی کے ایک ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے ایک حصے کو بتایا تھا کہ سابق طالبان ترجمان کو افغانستان سے گرفتار کیا تھا۔
لطیف آفریدی نے مزید کہا یہ رویہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے حوالے سے دوہری پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔’’ہماری ایجنسیاں اب بھی اچھے اور برے طالبان کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ افغان طالبان ہمارے لیے اچھے ہیں اور ٹی ٹی پی کی اکثریت بھی ہمارے لیے اچھی ہے۔ بس ان کو ہمارا کہنا ماننے کی ضرورت ہے اور پھر وہ بھی ہمارے لی اچھے ہو جائیں گے۔ یہ تباہ کن پالیسی ہے، جس سے ملک کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔‘‘
اس حوالے سے سپریم کورٹ کی خاموشی پر اس معروف وکیل نے کہا،’’ سپریم کورٹ ایجنسیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور نہ ان کے خلاف کوئی حکم دے سکتی ہے۔ ہماری ایجنسیاں بہت مضبوط ہیں، جن کا آئین، قانون اور جمہوری حکومت کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ میرے خیال میں سپریم کورٹ ایسا کوئی کام نہیں کر سکتی جو آئی ایس آئی یا فوج کو برا لگے۔‘‘
ان کے بقول احسان اللہ احسان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔ ’’میں آئی ایس پی آر کی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس طالبان دہشت گرد کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ مجھے پکا یقین ہے کہ اس کے خلاف کچھ نہیں ہو گا۔ اس نے کلبھوشن کے خلاف بیان دیا ہے کہ بھارتی را ٹی ٹی پی کی مدد کر رہی تھی۔ تو اب آرمی اس کے خلاف کیسے کارروائی کر سکتی ہے۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اسد بٹ نے اس حوالے سے اپنے تاثرات دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کے بہت سارے لوگ اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہیں ہیں اور وہ اب ان کو بچا رہی ہے،’’میں نے خود آٹھ سال پہلے گلگت کے قریب ایک علاقے میں ایک طرف طالبان کے کیمپ دیکھے اور دوسری طرف آرمی کے۔ تو یہ ان کے ہی لوگ ہیں۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ حمید گل اور دوسرے جرنلز ان دہشت گردوں کو اپنا بیٹا قرار دیتے تھے۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،’’سپریم کورٹ بھی ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی اور نہ ہی وہ احسان اللہ احسان والے واقعے کا نوٹس لے گی کیونکہ سپریم کورٹ سمیت سارے ادارے آرمی کے سامنے بے بس ہیں۔ یہ پالیسی آرمی نے ہی بنائی ہو گی۔ حکومت یا پارلیمنٹ کو اس کی کوئی خبر نہیں ہو گی۔ آپ دیکھیں سپریم کورٹ میں روزانہ گمشدہ افراد کے گھر والے بیٹھے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک کرنل کو بھی طلب نہیں کر پاتی اور اگر طلب کرتی ہے تو وہ پیش نہیں ہوتا۔‘‘
اے این پی کی سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’اسٹیبلشمنٹ نے بے حسی کا ثبوت دیتے ہوئے احسان اللہ احسان کو مین اسٹریم میڈیا پر پیش کیا جس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی اور اس پر شدید ردِعمل بھی آیا۔ اس عمل سے ان گھرانوں کو بھی شدید تکلیف ہوئی، جن کے پیاروں کو طالبان دہشت گردوں نے انتہائی بے دردی سے دہشت گردانہ حملوں میں نشانہ بنایا۔ اے این پی نے طالبان اور عسکریت پسندی کی ہمیشہ مخالف کی ہے اور خطے میں امن کے لیے ہماری پارٹی نے بہت قربانیاں بھی دی ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام دہشت گردوں کو، چاہے ان کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو، پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق عبرتناک سزا دی جائے۔ اچھے اور برے طالبان میں کوئی تمیز نہیں کی جائے اور ہم جو تباہ کن پالیسی پر عمل پیرا ہیں اس پر نظرِ ثانی کی جائے۔ احسان اللہ احسان سمیت وہ تمام دہشت گرد جنہوں نے اپنے آپ کو قانون کے حوالے کیا ہے، ان کو انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کرنے پر عبرتناک سزا دی جائے۔ ایسے دہشت گردوں کو میڈیا پر بالکل جگہ نہ دی جائے۔‘‘
پاکستانی سینیٹ کی ایک کمیٹی نے بھی احسان اللہ احسان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس حوالے سے سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’احسان اللہ احسان نے کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ سینیٹ کی کمیٹی نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں۔ ہم نے بائیس مئی کو متعلقہ اداروں کے افراد کو طلب کیا ہے اور وہ آ کر ہمیں اس مسئلے پر بریفنگ دیں گے۔‘‘