پاکستانی وزیرِ داخلہ احسن اقبال پر حملے کے بعد ملک میں آزاد انہ انتخابی ماحول کے حوالے سے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں اور یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ گزشتہ انتخابات کی طرح یہ انتخابات بھی کسی حد تک خوف کے ماحول میں منعقد ہوں گے۔
اشتہار
یہ پاکستان میں پہلا موقع نہیں ہے کہ انتخابات سے پہلے ملک میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہوں۔ پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو دسمبر دوہزار سات میں قتل کر دیا گیا تھا، یہ قتل دوہزار آٹھ کے عام انتخابات سے صرف چند مہینے پہلے کیا گیا تھا۔ بہت سارے مبصرین کے خیال میں یہ قتل انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے گرایا گیا تھا۔
سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز پر بھی اٹک میں اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ وزیرِ اعظم بننے سے پہلے اس علاقے میں ضمنی انتخاب کے لیے انتخابی مہم چلانے گئے تھے۔ اے این پی کے رہنما بشیر احمد بلور سمیت ان کی پارٹی کے کئی کارکنوں کو دوہزآٹھ سے دوہزار بارہ کے درمیان ہلاک کیا گیا، جس کی وجہ سے پختون قوم پرست پارٹی دوہزار تیرہ میں اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکی۔ اس کے علاوہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کی قیادتوں کو بھی تحریک طالبان کی طرف سے دھمکی دی گئی تھی اورایم کیو ایم کی ایک ریلی کے بعد شرکاء پر ایک حملہ بھی کیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم اس حملے اور پی پی پی طالبان کی دھمکیوں کے باعث دوہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے اپنی انتخابی مہم محدود کرنے پرمجبور ہوئی۔
لیکن کیا اب نون لیگ کو بھی ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے اور کیا وہ بھی دہشت گرد گروپوں کی وجہ سے اپنی انتخابی مہم محدود کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر خالد جاوید جان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں مسلم لیگ کے لیے ایسی پریشانی نہیں ہے، جیسی کہ پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو لاحق تھی کیونکہ اب ٹی ٹی پی اتنی طاقتور نہیں جتنی کے وہ دوہزار تیرہ میں تھی۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ حملہ تحریکِ لبیک نے کرایا ہے، تو یہ تحریک طالبان کی طرح منظم نہیں ہے اور نہ ہی یہ طالبان کی طرز پر حملے کر سکتی ہے۔ تاہم اس حملے کی وجہ سے نون لیگ خوف میں مبتلا ہوگئی ہے، جس کا کسی حد تک اثر انتخابی مہم پر پڑ سکتا ہے۔‘‘
کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں اس حملے کو صرف نون لیگ کے نقصان کے تناظر میں ہی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ حملہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم روادری کی نشاندہی کرتا ہے، جس کے نتائج پوری پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔
لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا نے اس حملے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق حملہ آور تحریک لیبک کے رہنما کی اشتعال انگیز تقریروں سے متاثر تھا۔ نون لیگ نے اس انتہا پسند تنظیم سے قانون کے مطابق نمٹنے کے بجائے، مذہبی شدت پسندوں کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ جس سے ان کے حوصلے بڑھ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نون لیگ کے لوگوں پر مزید حملے ہوں گے۔ ان کے رہنما ایک طرف پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوں گے اور دوسری طرف پارٹی میں رہ جانے والے رہنما اپنی انتخابی مہم مؤثر انداز میں چلا نہیں سکیں گے۔ جس کا یقینا ًانتخابات پر اثر ہوگا اور نواز لیگ کئی نشستوں سے محروم ہوجائے گی۔‘‘
اس حملے کو تقریباﹰ سارے ہی سیاست دان تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان، بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری سمیت ساری سیاسی قیادت نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اس نوعیت کے مزید حملے آنے والے مہینوں میں ہوئے تو نہ صرف انتخابی مہم بلکہ انتخابات کا انعقاد بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
جوتا کس نے پھینکا؟
حالیہ کچھ عرصے میں کئی ملکوں کے سربراہان اور سیاستدانوں پر جوتا پھینکے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ شہرت سابق امریکی صدر بُش پر پھینکے گئے جوتے کو ملی اور تازہ شکار سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بنے۔
تصویر: AP
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا اُن کے عراقی کے دورے کے دوران پھینکا گیا۔ یہ جوتا ایک صحافی منتظر الزیدی نے چودہ دسمبر سن 2008 کو پھینکا تھا۔
تصویر: AP
سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ
دو فروری سن 2009 کو لندن میں سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ پر ایک جرمن شہری مارٹن ژانکے نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ جوتا جیا باؤ سے کچھ فاصلے پر جا کر گرا تھا۔
تصویر: Getty Images
سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد
ایرانی صوبے مغربی آذربائیجدان کے بڑے شہر ارومیہ میں قدامت پسند سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ یہ واقعہ چھ مارچ سن 2009 کو رونما ہوا تھا۔ احمدی نژاد کو سن 2006 میں تہران کی مشہور یونیورسٹی کے دورے پر بھی جوتے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تصویر: fardanews
سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ
چھبیس اپریل سن 2009 کو احمد آباد شہر میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کے رہنما اور اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پر ایک نوجوان نے جوتا پھینکا، جو اُن سے چند قدم دور گرا۔
تصویر: Reuters/B. Mathur
سوڈانی صدر عمر البشیر
جنوری سن 2010 میں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے ’فرینڈ شپ ہال‘ میں صدر عمر البشیر پر جوتا پھینکا گیا۔ سوڈانی صدر کا دفتر اس واقعے سے اب تک انکاری ہے، لیکن عینی شاہدوں کے مطابق یہ واقعہ درست ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Hamid
ترک صدر رجب طیب ایردوآن
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پر فروری سن 2010 میں ایک کرد نوجوان نے جوتا پھینک کر کردستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ کرد شامی شہریت کا حامل تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/O. Akkanat
سابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری
پاکستان کے سابق صدرآصف علی زرداری کے برطانوی شہر برمنگھم کے دورے کے موقع پر ایک پچاس سالہ شخص سردار شمیم خان نے اپنے دونوں جوتے پھینکے تھے۔ یہ واقعہ سات اگست سن 2010 کا ہے۔
تصویر: Getty Images
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر
چار ستمبر سن 2010 کو سابق برطانوی وزیر ٹونی بلیئر کو ڈبلن میں جوتوں اور انڈوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈبلن میں وہ اپنی کتاب ’اے جرنی‘ کی تقریب رونمائی میں شریک تھے۔
تصویر: Imago/i Images/E. Franks
سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ
چار نومبر سن 2010 کو کیمبرج یونیورسٹی میں تقریر کے دوران سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ پر جوتا پھینکا گیا۔ جوتا پھینکنے والا آسٹریلیا کا ایک طالب علم تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف
لندن میں ایک ہجوم سے خطاب کے دوران سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ واقعہ چھ فروری سن 2011 کو پیش آیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق تائیوانی صدر ما یِنگ جُو
تائیوان کے سابق صدر ما یِنگ جُو پر اُن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہجوم میں سے کسی شخص نے جوتا آٹھ ستمبر سن 2013 کو پھینکا۔ تاہم وہ جوتے کا نشانہ بننے سے بال بال بچ گئے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو گیارہ مارچ سن 2018 کو ایک مدرسے میں تقریر سے قبل جوتا مارا گیا۔ اس طرح وہ جوتے سے حملے کا نشانہ بننے والی تیسری اہم پاکستانی سیاسی شخصیت بن گئے۔