احمدی نژاد کا متنازعہ دورہء لبنان: ایران کیا چاہتا ہے؟
11 اکتوبر 2010احمدی نژاد 2005ء میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ لبنان جائیں گے۔ وہ اپنے اس دو روزہ دورے کے دوران اپنے لبنانی ہم منصب میشل سلیمان، وزیر اعظم سعد حریری اور پارلیمانی سپیکر نبی بیری سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ اس دوران وہ شیعہ شدت پسند گروپ حزب اللہ کے زیر اہتمام لبنانی دارالحکومت بیروت میں اہتمام کردہ ایک ریلی میں بھی شریک ہوں گے۔
تاہم ان کے اس دورے کا سب سے زیادہ متنازعہ مرحلہ جمعرات کو آئے گا، جب حزب اللہ کی جانب سے انہیں اسرائیل کے ساتھ لبنان کے سرحدی دیہات کا دورہ کرایا جائے گا۔ یہ علاقہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 2006ء کی جنگ میں تباہ ہوا تھا اور وہاں ایران کی مالی معاونت سے تعمیر نو اور بحالی کے منصوبے شروع کئے گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بیروت کے ایسے علاقے، جو حزب اللہ کا گڑھ تصور کئے جاتے ہیں، وہاں احمدی نژاد کا پرتپاک استقبال یقینی ہے۔ تاہم لبنان کی اکثریتی طور پر مغرب نواز پارلیمان ان کے اس دورے کو اشتعال انگیز خیال کرتی ہے۔
مارچ 14اتحاد نامی تنظیم کے کوآرڈینیٹر Fares Souaid کا کہنا ہے: ’’بلاواسطہ وہ یہاں بین الاقوامی برادری کو یہ بتانے آ رہے ہیں کہ اگر عالمی برادری عرب دنیا میں امن چاہتی ہے، تو یہ ایران کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ ایران کو سپر اسلامی طاقت کا درجہ حاصل ہے۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ لبنان بحیرہ روم کے علاقے میں ایک ایرانی بیس ہے اور وہ لبنان کو بین الاقوامی برادری کے نام پیغام بھیجنے کے لئے میل باکس کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
بیروت کی سینٹ جوزف یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کی سربراہ فادیہ کیوان کہتی ہیں: ’’دیکھنا یہ ہو گا کہ احمدی نژاد لبنان کے لئے حمایت کا اظہار کرنے آ رہے ہیں یا وہ اپنے مفادات کے لئے لبنانی علاقوں کو سپرنگ بورڈ کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
فادیہ کیوان نے کہا کہ لبنانی عوام اور حزب اللہ کو ایران کی حمایت کا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ لیکن انہیں اس حمایت کی حدود بھی مدنظر رکھنی چاہئیں۔ فادیہ نے کہا کہ ایرانی حمایت ایک دو دھاری تلوار ہے۔
دوسری جانب احمدی نژاد کے اعلیٰ معاون علی اکبر نے کہا ہے کہ ایرانی صدر کا دورہء لبنان تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دورے کا مقصد واضح ہے، جو لبنان کے ساتھ گہرے باہمی تعاون کے تناظر میں ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی بھی صدر کے ہمراہ ہوں گے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: مقبول ملک