احمدی کمیونٹی کے حوالے سے رپورٹنگ، صحافی پر حملہ
13 جون 2017رانا تنویر پاکستانی اخبار ایکسپریس ٹریبیون سے منسلک ہیں اور اقلیتیوں کے مسائل اور ان سے جڑے معاملات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،’’ گزشتہ جمعے کے روز میں انتہائی کم اسپیڈ سے موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک گاڑی نے پیچھے سے آ کر ٹکر مار دی اور تیزی سے آگے چلی گئی۔‘‘ رانا تنویر نے بتایا کے اس واقعہ سے ایک ہفتہ قبل ان گھر کے دروازے پر کوئی نفرت آمیز مواد لکھ کر چلا گیا تھا۔ پیغام میں لکھا تھا،’’ قادیانی نواز رانا تنویر واجب القتل۔‘‘ زخمی ہونے کے سبب رانا تنویر اب بھی ہسپتال میں ہیں جہاں ان کے کولہے کا آپریشن کیا گیا ہے۔
رانا تنویر نے مزيد بتایا، ’’میں عموماً سکھ، ہندو، مسیحی، اور احمدی کميونيٹيز کے معاملات اور انہيں درپيش مسائل پر رپورٹنگ کرتا ہوں۔ سن 2013 میں بھی مجھے ایک دھمکی آمیز خط موصول ہوا تھا اور ميں نے اس واقعہ کی بھی شکايت درج کرا دی تھی۔‘‘ اس صحافی نے بتایا کہ تین ماہ قبل اس کے مالک مکان کو کسی شخص نے فون کال پر کہا تھا کہ اس نے ایک لادین شخص کو اپنا گھر کرائے پر دیا ہوا ہے۔ رانا تنویر کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مالک مکان کو یقین دلایا کہ وہ مسلمان ہيں اور يہ کہ ان کے مالک مکان کو ان سے کوئی پریشانی نہیں تھی اس لیے یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ لیکن اب جب کہ ان کے گھر کے باہر اسپرے پینٹ سے یہ پیغام لکھا گیا ہے تو وہ اپنے مالک مکان کے لیے بھی سکیورٹی رسک بن گئے ہيں۔ نتيجتاً انہيں اپنا گھر چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ رانا تنویر نے کہا اس مشکل وقت میں ان کا ادارہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
سینئر صحافی اویس توحید نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ سماج میں انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے۔ جو بات پہلے پریس کلب میں کی جا سکتی تھی اب نہیں کی جا سکتی۔ اس معاشرے میں صحافیوں کے لیے اپنے کام سر انجام دینا مشکل ہو گیا ہے۔‘‘ اویس توحید نے کہا کہ احمدی کمیونٹی اور اقلیتیوں کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے بہت کم صحافی ہیں۔ پاکستان کے سینئر صحافیوں کے ایک گروپ، جس کی سربراہی ڈان اخبار کے ایڈیٹر ظفر عباس کر رہے ہیں، نے حکومت سے مطالبہ کيا کہ اس واقعے کی تحقیقات کرائی جائیں اور رانا تنویز جیسے صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
اویس توحید نے بتایا کہ ہری پور میں بھی ایک سینئر صحافی بخشی الٰہی کو ناملوم افراد نے قتل کر دیا ہے۔ وہ ايک بس سٹاپ پر کھڑے تھے کہ ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔ کچھ روز قبل پاکستان کے نامور صحافی اعزاز سید کو اسلام آباد میں اغواء کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ خوش قسمتی سے اعزاز سید اغواء کاروں کے ہاتھوں سے نکل گئے۔
واضح رہے کہ سن 2017 میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے انڈیکس میں پاکستان میں بہتری تو آئی ہے لیکن اویس توحید کا کہنا ہے، ’’ہمیں نقصان ہوا ہے۔ صحافتی اداروں کے اندر سیلف سنسرشپ آتی جا رہی ہے جو ہم سب کے لیے دھچکا ہے اب ہم اس پر غور کر رہے ہیں کہ حساس موضوعات جیسے کہ فرقہ واریت اور اقلیتوں کے معاملے پر بے باک رپورٹنگ کو کیسے یقینی بنایا جائے۔‘‘
پاکستانی صحافیوں نے رانا تنویر پر حملے، الٰہی بخش کے قتل اور اعزاز سید کو اغوا کرنے کی کوشش پر سوشل میڈیا پر بھی آواز اٹھائی ہے اور حکومت سے ان واقعات کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔