یہ بلاگ لکھنا تو کل تھا لیکن آج وقت ملا۔ کچھ روزگار کے مسائل اور کچھ دنیا داری، وقت بھی عید کا چاند ہی ہو گیا ہے۔ جس دن ویڈیو بلاگ بنانا ہو، اس دن تو سمجھیے پورا دن ہی اس کی نذر ہوا۔
اشتہار
دیکھنے والوں کو یہی گمان ہوتا ہے کہ بس پارک میں زمین پر بیٹھتی ہے۔ کیمرہ ٹکاتی ہے اور فر فر بولنا شروع کر دیتی ہے۔ یوں بھی پانچ منٹ کے وی لاگ میں ایسا بھی کیا جوئے شیر لانا ہوتا ہے۔ آتی ہے اور بس بول کر نکلنے کی کرتی ہے۔ کاش کہ یہ سب اتنا ہی سہل ہوتا، جتنا کہ دیکھنے والوں کی نظر میں ہے۔ کاش زندگی نرم ملائم چاکلیٹ کیک کا وہی پیس ہوتی جو لوگوں کو دور سے دکھائی دیتی ہے۔
وی لاگ کے بعد کمنٹس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جن میں سے بہت سے لوگ اپنے تجربات بیان کرتے ہیں، میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اختلاف کے باوجود شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، لیکن وہیں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کی زندگی کا واحد مقصد غالباﹰ خواتین کی پوسٹوں پر وہ زبان استعمال کرنا ہے، جو بیان سے باہر ہے۔
ایسی بدتہذیبی دیکھ کر چینل کی شروعات سے لے کر اب تک مجھے اکثر اوقات یہی سننے کو ملا کہ بھئی کوکنگ چینل بنا لو، میک اپ سیکھا لو۔ کوئی ہلکا پھلکا موضوع چنو، کیونکہ تبصروں اور تجزیوں کو تو ہمیشہ سے ہی مردوں کی راجدھانی سمجھا گیا ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں اگر سوشل میڈیا صارفین کی شرح دیکھی جائے تو پانچ مرد اور ایک عورت ہیں۔ یعنی عورتیں کل آبادی کا پچاس فیصد سے زائد ہیں لیکن سوشل میڈیا پر نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایران میں سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارتی باہمت خواتین
آج کل بہت سی حوصلہ مند خواتین ایرانی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں حقوقِ انسانی کی علمبردار خواتین کے ساتھ ساتھ صحافی، فنکارائیں یا کسی بھی شعبے میں جدوجہد کرنے والی عام خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: Iran-Emrooz/HRANA
نازنین زاغری - ریٹکلف
ایران اور برطانیہ کی دوہری شہریت کی حامل یہ خاتون تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی کارکن ہیں اور اپریل 2016ء سے جیل میں ہیں۔ وہ اپنی دو سالہ بیٹی کے ہمراہ ایران میں اپنے اہل خانہ کو ملنے کے لیے گئی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ وہ دھیمے انداز میں ’اسلامی جمہوریہٴ ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے‘ کی تیاریاں کر ر ہی تھیں۔ دنیا بھر کے صحافیوں کو تربیت فراہم کرنے والی فاؤنڈیشن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
تصویر: Iran-Emrooz/HRANA
زہرہ رہ نورد
زہرہ رہ نورد اپوزیشن سیاستدان میر حسین موسوی کی اہلیہ ہیں۔ اُنہیں ایران کی معروف ترین خاتون سیاسی قیدی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سن 2009ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد زہرہ رہ نورد نے، جو ایک پروفیسر ہیں، اپنے شوہر کی حمایت کی تھی۔ وہ مجسمہ ساز بھی ہیں اور امورِ سیاست کی ایک ممتاز محققہ بھی لیکن وہ فروری 2011ء سے اپنے شوہر کے ہمراہ کسی بھی فردِ جرم کے بغیر اپنے گھر میں نظر بند چلی آ رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images
نرگس محمدی
یہ خاتون انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ اگرچہ اُن کی سرگرمیاں پُر امن تصور کی جاتی ہیں لیکن مئی 2016ء میں اُنہیں سولہ سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا۔ جون کے اواخر سے وہ بھوک ہڑتال پر چلی گئیں کیونکہ حکام اُنہیں اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ فون پر بھی رابطہ نہیں کرنے دے رہے تھے۔ بیس روز کی بھوک ہڑتال کے بعد بالآخر اُنہیں ہفتے میں ایک بار اپنے بچوں کے ساتھ فون پر بات چیت کی اجازت دے دی گئی۔
تصویر: cshr.org
ہما ہودفر
کینیڈا اور ایران کی دوہری شہریت کی حامل ہما ہودفر ایک ماہرِ بشریات ہیں اور چھ جون 2015ء سے تہران کی بدنامِ زمانہ اوین جیل میں قید ہیں۔ یہ ممتاز محققہ گزشتہ سال فروری میں ایک نجی دورے پر ایران گئی تھیں۔ وہ ایرانی سیاست میں خواتین کے تاریخی کردار پر تحقیق کرنا چاہتی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک ’نسوانی سازش‘ کو ہوا دی ہے۔
تصویر: irane emrooz
بہارہ ہدایت
اِس خاتون کو ایران میں طالب علموں اور خواتین کی تحریک کے درمیان رابطے کے حوالے سے مرکزی شخصیت گردانا جاتا ہے۔ اُنہیں 2010ء میں اپنی شادی کے کچھ ہی عرصے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور 9 سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ تب وہ طلبہ کی ایک تنظیم OCU (آفس فار کونسیلیڈیٹنگ یونٹی) کی سربراہ تھیں، جو ملک میں سیاسی اصلاحات کے لیے کوشاں تھی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف سرگرم تھی۔
تصویر: humanrights-ir.org
ریحانہ طباطبائی
سیاسی امور پر لکھنے والی اس صحافی خاتون کو کئی مرتبہ جیل جانا پڑا ہے۔ اس بار وہ جنوری 2016ء سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اُن پر ریاست کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کا الزام ہے۔ ریحانہ طباطبائی کو ایک سال قید کا حکم سنایا گیا ہے اور اُن پر دو سال تک کے لیے اپنے شعبے میں کام کرنے کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ انقلابی عدالت نے دو سال تک کے لیے اُنہیں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے سے منع کر دیا ہے۔
تصویر: melliun.org
فریبہ کمال آبادی
آٹھ سال تک جیل میں رہنے کے بعد فریبہ کمال آبادی (دائیں سے تیسرے نمبر پر) اس سال مئی کے اوائل میں جیل سے چھٹیوں پر باہر آئیں۔ 2008ء تک وہ بہائی فرقے کی نمائندگی کرنے والی سرکردہ ترین خاتون تھیں۔ اُنہیں اپنے عقیدے کی وجہ سے بیس سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ جیل سے چھٹیوں کے دوران سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی کے ساتھ اُن کی ملاقات کو ’اسلام سے غداری‘ کے مترادف قرار دیا گیا۔
تصویر: jahannews
7 تصاویر1 | 7
کبھی کبھی لگتا ہے کہ ابھی سے تھکاوٹ ہو گئی ہے، سستانے کو جی چاہتا ہے۔ دل کہتا ہے کہ ہلکے پھلکے ویڈیو بلاگ بنانے کا آسان رستہ کیوں نہیں چن لیتی؟ مجھے کیا پڑی ہے کہ اپنی ہر صبح کا آغاز انجان لوگوں کی گالم گلوچ سے کروں؟ لوگوں کی صبح کا آغاز خوبصورت کلام سے ہوتا ہے اور مجھے یہ فکر ہوتی ہے کہ بس مغلظات ڈیلیٹ کر لوں۔
مجھے چین کیوں نہیں آتا؟ نوکیلے پتھروں پر چلنے کی کیا مجبوری ہے؟ مجھے تو نہ کوئی جانتا ہے نہ پہچانتا ہے۔ پھر یہ سب بکھیڑا کیوں؟ لیکن کیا کروں، یہ راہ چن لی ہے تو اب اس پر منزل دیکھنی ہے۔ وہ دن دیکھنا ہے، جب سیاسی اور معاشرتی تجزیہ محض مردوں کی میراث نہ رہے۔
بائی دا وے، یہ تو پوچھنا حماقت ہو گی کہ آپ سوشل میڈیا پر ہیں یا نہیں کیونکہ ظاہری بات ہے کہ آپ کے صبح شام بھی سوشل میڈیا پر گزرتے ہیں۔ آج کل ایک ٹرینڈ #AttacksWontSilenceUs کا بہت چرچا ہے، جس میں وہ خواتین صحافی، جنہیں اختلاف رائے کی بنیاد پر ناقابل بیان زبان میں تنقید اور کردار پر رکیک حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اٹھ کھڑی ہوئی ہیں کہ یہ سب اب نہیں چلے گا۔ اگر کسی بھی سوشل میڈیا صارف کو لگتا ہے کہ ناشائستہ زبان استعمال کر کے خواتین صحافیوں کو خاموش کروایا جا سکتا ہے تو یہ ان کی بھول ہے۔
سچ پوچھیے تو یہ ٹرینڈ دیکھ کر لگتا ہے کہ پکچر واقعی ابھی باقی ہے۔ جب تک صبح کی روشنی نظر نہیں آتی، چلتے جانا ہے۔ جب عورتیں بیدار ہوئیں، وہی سویرے کا وقت ہے اور شاید اب سویرا آنے والا ہے۔ ہم عورتیں اُس وقت تک ڈٹی رہیں گی، جب تک اپنی رائے کا اظہار کرنے پر ہمیں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ جب تک ہمیں یہ مشورے نہ دیے جائیں گے کہ بی بی کچھ 'ہلکا پھلکا' کام کرو۔ جب تک اختلاف رائے کی بنیاد پر ہمارے کردار پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ بند نہیں ہوتا، ذرا سی بحث پر ہمارے خاندان کو گفتگو میں گھسیٹنے کی روایت نہیں ٹوٹتی۔ جب وہ دن آ گیا تو میں بھی آرام سے بیٹھ جاوں گی اور موٹر سائیکل پر دنیا کی سیر کو نکل جاوں گی۔ جب تک وہ دن نہیں آتا میں بھی یہیں ہوں اور آپ بھی۔