1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اخوان المسلمون پر پابندی، جائیداد اور اثاثے ضبط

مارکوس سیمانک / امتیاز احمد24 ستمبر 2013

گزشتہ روز مصر کی ایک عدالت نے اخوان المسلمون پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی نئی سیکولر عبوری حکومت اور اسلام پسندوں کے مابین خلیج وسیع تر ہو گئی ہے۔

تصویر: Awad Awad/AFP/Getty Images

ڈکٹیٹر حُسنی مبارک کے دور کی طرح ایک مرتبہ پھر اخوان المسلمون کے سینکڑوں اہلکار جیل میں ہیں۔ اس تنظیم کی طرف سے عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔

محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کی حمایتی جماعت اخوان المسلمون کے زیادہ تر رہنما یا تو جیل میں ہیں یا پھر مفرور۔ اب قاہرہ کی ایک عدالت نے مصر کی قدیم ترین اسلامی جماعت کو ایک اور دھچکا پہنچایا ہے۔ اخوان المسلمون پر پابندی عائد کرتے ہوئے جج محمد السعید کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم ’ملکی سلامتی‘ کے لیے خطرہ ہے۔ ساتھ ہی اسلام پسندوں کی جائیدادیں اور اثاثے ضبط کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

تصویر: Reuters

تین جولائی کو محمد مرسی کی معزولی کے بعد سے ان کے دو ہزار سے زائد حامیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور اس تنظیم کے درجنوں رہنما روپوش ہو چکے ہیں۔ اخوان المسلون سے وابستہ ایک سرجن کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’وہ مصر کو 50 یا 60 برس پیچھے پھینکنا چاہتے ہیں۔ اس وقت اخوان المسلمون ایک کالعدم تنظیم تھی اور اسے کھلے عام کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔‘‘

سن 1954ء میں آرمی اور اخوان المسلمون کے مابین اقتدار کی خونی لڑائی ہوئی تھی، جس کے بعد صدر جمال عبد الناصر نے اس تنظیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔ دارالحکومت قاہرہ کے جنوب میں واقع ایک مسجد کے باہر عدالت کے حالیہ فیصلے پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ اس تنظیم کے حامی اکثر اس جگہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ سفید جُبے میں ملبوس ایک اسٹوڈنٹ کا کہنا ہے کہ وہ اخوان المسلون کا حامی ہے۔ ملک کے طاقتور آرمی چیف عبدالفتح السیسی کو بُرا بھلا کہتے ہوئے وہ بتاتا ہے، ’’ سب کچھ ایک ڈرامہ ہے،جسے خفیہ ایجنسی نے تیار کیا ہے۔ السیسی ہمیں بیوقوف بنانا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ، جو السیسی کر رہا ہے، اس میں آزادی اور انسانی وقار کہاں ہے ؟‘‘

مصری اس بات پر بھی فکرمند ہیں کہ اخوان المسلمون کے کچھ کارکن زیر زمین رہتے ہوئے شدت پسندی کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں سکیورٹی فورسز پر متعدد حملے کیے گئے، جس کے نتیجے میں 100 سے زائد پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔

اخوان المسلمون کے مطابق پیر 23 ستمبر کو سامنے آنے والا عدالتی فیصلہ ابھی آغاز ہے۔ آئندہ ماہ اخوان المسلمون کے اہم رہنماؤں کو عدالت میں پیش کیا جائے گا اور ان میں معزول صدر محمد مرسی بھی شامل ہوں گے۔ دسمبر میں اسکندریہ کی عدالت یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ آیا اخوان المسلون ایک دہشت گرد تنظیم ہے یا نہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں