اخوان المسلمون کے سینکڑوں ارکان شام لوٹ گئے
7 مئی 2015اخوان المسلمون پر شام سمیت زیادہ تر عرب ممالک میں پابندی عائد ہے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔ شام میں موجودہ صدر بشار الاسد کے والد کی جانب سے 30 برس سے زائد عرصہ قبل اخوان المسلمون پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس کا رکن بننے پر موت کی سزا مقرر کر دی تھی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جلاوطنی ترک کر کے اب شام لوٹنے والے اخوان المسملون کے زیادہ تر ارکان ان علاقوں کا رُخ کر رہے ہیں جو باغیوں کے زیر کنٹرول ہیں۔
روئٹرز کے مطابق اخوان المسلمون کے شام پہنچنے والے ارکان اپنی تحریک کے اثر و رسوخ اور متعبریت کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کا کوئی باقاعدہ عسکری بازو نہیں ہے جبکہ یہ تنظیم اس طرح کی خبروں کی بھی تردید کرتی ہے کہ وہ درپردہ شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے مسلح گروپوں کو مدد فراہم کر رہی ہے۔
شامی اخوان المسلمون کے سربراہ محمد ولید نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ شام واپس جائیں۔۔۔ میں کہوں گا کہ سینکڑوں۔‘‘
ترکی کے شہر استنبول میں جہاں انہوں نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے، روئٹرز کے ساتھ اپنے انٹرویو میں ولید کا کہنا تھا کہ یہ اہم ارکان لوگوں کے سامنے اپنے گروپ کے اغراض و مقاصد واضح کریں گے: ’’ہم ایک لمبے عرصے تک منظر سے غائب رہے ہیں۔ شام میں بہت سے لوگ ہمارے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔‘‘
مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں اور اس تنظیم کو اقوام متحدہ کی زیر سربراہی ہونے والے امن مذاکرات سے بھی باہر رکھا گیا ہے۔ شام کی طاقتور 110 رکنی ’سیریئن نیشنل کولیشن‘ میں اخوان المسلمون کے پانچ ارکان بھی شامل ہیں۔
تاہم اس تنظیم کی شامی شاخ کا کہنا ہے کہ وہ ’معتدل اسلام‘ کی پیروکار ہے اور وہ خود کو شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ سے بھی فاصلے پر رکھتی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ نے شام اور عراق کے کچھ حصوں پر خود ساختہ خلافت قائم کر رکھی ہے۔
70 سالہ محد ولید آئی اسپیشلسٹ ہیں اور وہ شام کے ساحلی شہر الاذقیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں شام چھوڑنے والے ولید کا کہنا تھا کہ شام واپس پہنچنے والے زیادہ تر لوگ حلب، ادلب اور حما میں گئے ہیں۔
1982ء میں اخوان المسلمون کی تحریک کو کچلنے کے لیے اس وقت کے صدر حافظ الاسد کی سکیورٹی فورسز نے ان شہروں میں آباد ہزاروں لوگوں کو ہلاک کر کے ان کی آبادیوں کو تباہ کر دیا تھا۔ شامی اخوان المسلمون کے ایک رُکن عمر مشاویہ کے مطابق سوائے ایسے غیر فعال بزرگ ارکان کے جو ملک نہیں چھوڑ سکتے تھے، 1982ء کے آپریشن کے بعد شام میں اس تنظیم کی کوئی نمائندگی باقی نہیں بچی تھی۔