1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اخوان المسلمون کے مظاہرین پر فوجی حملوں کی تفتیشی رپورٹ

خالد ال کاؤتی/ کشور مصطفیٰ6 مارچ 2014

اگست 2013 ء میں معذول مصری صدر محمد مرسی کے حامیوں کے ایک کیمپ پر ملکی فوج نے حملہ کیا تھا۔ اس آپریشن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اُس واقعے کی چھان بین اور تحقیقات کی رپورٹ اب منظر عام پر آئی ہے۔

تصویر: Reuters

اس رپورٹ میں ایک عینی شاہد کے بیانات کا حوالہ بھی شامل ہے۔

قاہرہ کے لگژری ہوٹل فیئر مونٹ کے باہر میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کا ایک ہجوم نظر آ رہا تھا۔ مصر کی قومی مشاورتی کونسل برائے انسانی حقوق کی طرف سے انتہائی مختصر نوٹس پر ایک پریس کانفرنس کا اعلان کیا گیا تھا اور اس کے باوجود صحافیوں کی ایک بڑی تعداد اس موقع پر پہنچ گئی تھی۔ ان سب کو 14 اگست کے واقعات کی چھان بین کے اولین نتائج کا انتظار تھا۔

ستائیس سالہ اعلیٰ الکمھاوی چودہ اگست کے واقعات کا جشم دید گواہ ہے۔ وہ فوٹو گرافر کی حیثیت سے شروع ہی سے مرسی کے حامیوں کے احتجاجی مظاہروں کی دستاویزی ثبوت اکٹھا کرتا رہا ہے۔ وقوعہ پر موجود رہنا اُس کی جاب کا حصہ رہا ہے۔ سیاسی اور نظریاتی طور پر اخوان المسلمون کے ساتھ اُس کی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ 14 اگست 2013 ء کو مصری فوجی آپریشن کے دوران ایک گولی اُس کی دائیں ران کو چھید کرتے ہوئے گزر گئی تھی۔ اعلیٰ الکمھاوی ہوٹل فیئرمونٹ سے کافی فاصلے پر ایک کیفے میں بیٹھا اُن خوفناک واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ تمام عمر اُس دن کو نہیں بھول سکا گا۔ وہ کہتا ہے،" میں نے زندگی میں کبھی اتنی لاشیں اور اتنا خون نہیں دیکھا تھا۔ بھاری ہتھیاروں کے استعمال سے پہلے پولیس کم از کم انتباہ کرتی ہے، مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلے تیز دھار والے پانی ، پھر آنسو گیس اور لاٹھی چارج وغیرہ بروئے کار لایا جاتا ہے پھر کہیں ہتھیاروں کے استعمال کی باری آتی ہے۔ لیکن اُس روز تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فرار کی کوئی گنجائش دیے بغیر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو جائے گی " ۔

سکیورٹی فورسز نے مشین گنوں اور بکتر بند گاڑیوں سے مظاہرین پر حملہ کیا تھاتصویر: picture alliance / dpa

تفتیشی رپورٹ میں بھی مصر کی فوج پر اس بارے میں سخت تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پہلی وارننگ اور فائر کھول دینے کے بیچ بیس پچیس منٹ کا وقفہ بھی نہیں تھا۔ جبکہ فوٹوگرافر اعلیٰ الکمھاوی کا کہنا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر علاقہ خالی کر دینے کے مطالبے کے اعلان کے دوران بھی فائرنگ مسلسل جاری تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ مظاہرے پُر امن طریقے سے شروع ہوئے تھے، بعد میں اخوان المسمون کے مسلح جنگجو اس میں شریک ہوئے۔ اعلیٰ الکمھاوی اس امر کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ اُس کا کہنا ہے کہ اُس علاقے میں ایک تشدد کیمپ موجود تھا جہاں مشتبہ مخبروں سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی اور غالباً انہیں اذیت رسانی کا شکار بھی بنایا جا رہا تھا، تاہم اُس نے ہتیھار نہیں دیکھے۔

ان سب کے باوجود مصری پولیس یہ کہہ کر حملوں کی وکالت کر رہی ہے کہ اخوان المسلمون کے مسلح حامیوں کی فائرنگ اشتعال انگیز تھی۔

اعلیٰ الکمھاوی کا کہنا ہے کہ مصری سکیورٹی فورسز نے مشین گنوں اور بکتر بند گاڑیوں سے ان مظاہرین پرر اندھا دھند فائرنگ کی جو مسلح فورسز کے سامنے ہاتھوں میں پتھر لیے کھڑے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں