اخونزادہ کا عید الاضحی کے ليے پيغام، عورتوں کے حقوق پر زور
25 جون 2023
افغانستان کے سپريم ليڈر نے دعویٰ کيا ہے کہ عورتوں کی زندگی ميں بہتری لانے کے ليے اقدامات کيے جا رہے ہيں۔ دوسری جانب ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ملک میں عورتوں کی حالتِ زار ’دنیا کی بدترین میں سے ایک ہے‘۔
اشتہار
افغانستان کے سپريم ليڈر ہیبت اللہ اخونزادہ نے عید الاضحیٰ کے ليے اپنے خصوصی پيغام ميں کہا ہے کہ اسلامی طرز حکومت کی بدولت خواتين کو روايتی مظالم سے بچايا جا رہا ہے اور ان کی 'آزاد و باقار انسانوں‘ کے طور پر حيثيت بحال کی جا رہی ہے۔
قندھار سے طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ کا يہ بيان آج اتوار 25 جون کو پانچ زبانوں ميں جاری کيا گيا۔ اخونزادہ شاذ و نادر ہی منظر عام پر آتے ہيں۔
اپنے بيان ميں انہوں نے دعوی کيا ہے کہ عورتوں کی زندگی ميں بہتری لانے کے ليے اقدامات کيے گئے ہيں۔ اخونزادہ نے بتايا کہ عورتوں کو دقيانوسی روايات اور جبری شاديوں سے تحفظ فراہم کرنے اور ان کے شرعی حقوق کے تحفظ کے ليے اقدامات کيے گئے ہيں۔ انہوں نے مزيد کہا کہ تمام اداروں کو احکامات جاری کيے گئے ہيں کہ عورتوں کی عزت و احترام کو يقينی بنايا جائے۔
اخونزادہ نے اپنے اس بيان ميں فلسطينيوں کے ساتھ اسرائيلی فوج کے رويے کو بھی تنقيد کا نشانہ بنايا۔
طالبان سے لڑنے والی افغان خواتین کا غیر یقینی مستقبل
02:59
اگست 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کو ہائی اسکول یا یونیورسٹی جانے سے روک دیا۔ ان پر پارک اور جم وغیرہ جانے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ عورتوں کے ليے يہ لازم ہےکہ وہ گھر سے نکلتے وقت پردہ کريں۔ علاوہ ازيں عورتوں کو اقوام متحدہ سمیت دیگر این جی اوز کے لیے کام کرنے سے بھی روک دیا گيا ہے جبکہ خواتين سرکاری ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا یا انہیں گھر پر رہنے کے لیے تنخواہ دی جا رہی ہے۔
اخونزادہ نے کہا کہ دسمبر 2021ء میں جاری ہونے والے چھ نکاتی حکم نامے میں خواتین کو ان کے حقوق کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس حکم نامے ميں جبری شادیوں کو غیر قانونی قرار دیا گيا اور عورتوں کے ليے وراثت اور طلاق کے حق کو شامل کیا گیا۔
ادھر افغانستان کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کی طرف سے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو دی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کی حالتِ زار 'دنیا کی بدترین میں سے ایک ہے‘۔ بینیٹ نے کہا، ''خواتین اور لڑکیوں کے خلاف سنگین، منظم اور ادارہ جاتی امتیازی سلوک طالبان کے نظریے اور حکمرانی کا عکاس ہے، جو ان خدشات کو بھی جنم دیتا ہے کہ وہ صنفی امتیاز کے لیے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کی ڈپٹی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ندا النشف کے مطابق، ''گزشتہ 22 مہینوں کے دوران، خواتین اور لڑکیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو محدود کر دیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ ہر طرح سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘
کھیلوں پر پابندی پر افغان خواتین کا احتجاج
دیگر شعبوں کی طرح کھیلوں میں بھی افغان خواتین پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ افغان طالبان کی سختی کے باوجود کچھ خواتین ان پابندیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ایسی ہی کچھ خواتین نے بطور احتجاج یہ تصاویر بنوائیں۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo
خواتین کو الگ کرنے کی کوشش
اگست سن دو ہزار اکیس میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسلامی قوانین کی آڑ میں طالبان نے خواتین پر متعدد طرح کی سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اب خواتین کھیلوں میں بھی حصہ نہیں لے سکتی ہیں۔ تاہم افغان خواتین طالبان کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ تصویر افغان خواتین کی سابق قومی فٹ بال ٹیم کی ہے، جنہیوں نے احتجاج کے طور پر یہ لباس پہن رکھا ہے، سب سے آگے ٹیم کی کوچ ہیں۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance
’جو کھیلوں سے بھی ڈر گئے‘
یہ نوجوان افغان لڑکی اسکیٹنگ کی شوقین ہے۔ یہ بھی افغان طالبان کی پابندیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ افغانستان میں خواتین اب نہ تو کسی سپورٹس کلب جا سکتی ہیں اور نہ ہی پارک۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اسے دھمکیاں ملتی ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ ان ناجائز و غیرقانونی پابندیوں کی خلاف ورزی پر ان خواتین کے ساتھ کیا سلوک برتا جائے۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance
افغان باکسنگ چیمپئن
بیس سالہ نورا بھی برقع پہن کر طالبان کی پابندیوں کے خلاف احتجاج میں شریک ہوئی۔ نورا کو وہ دن اب بھی اچھی طرح یاد ہے، جب طالبان نے اگست سن 2021 میں کابل پر دھاوا بولا تھا۔ تب وہ کابل سپورٹس کلب میں میں ایک ایونٹ میں شریک تھی۔ جیسے ہی لوگوں کو علم ہوا کہ طالبان نے کابل پر حملہ کر دیا ہے تو تمام خواتین وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئیں۔ یہ نورا کا آخری ٹورنامنٹ تھا۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance
کابل چھوڑنے پر مجبور
باکسنگ چیمپئن نورا کابل کے ایک پسماندہ علاقے میں پلی بڑھیں۔ انہیں ہمیشہ سے ہی مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جب طالبان نے اس بیس سالہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کو دھمکانا بند نہ کیا تو وہ سب کابل سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ نورا کا کہنا ہے کہ جب سے طالبان کی واپسی ہوئی ہے، وہ خود کو مردہ محسوس کر رہی ہیں۔ تاہم وہ نہیں چاہتیں کہ یہ کیفیت ان کی موت تک برقرار رہے۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo
خاموش کرانے کی سوچی سمجھی کوشش
اس افغان خاتون سائیکلسٹ کو بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ طالبان تمام خواتین کو خاموش کرا دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کے خلاف کوئی آواز بلند کرنے والا نہ رہے۔ خواتین اور بچیوں کو تعلیمی اداروں میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ طالبان ایک ایسی نئی نسل تیار کرنا چاہتی ہے، جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance
باسکٹ بال بھی ختم
افغان خواتین باسکٹ بال کو بھی بہت پسند کرتی ہیں۔ تاہم افغان طالبان اس حق میں نہیں کہ خواتین اس کھیل میں حصہ لیں۔ افغان نیشنل اولمپک کمیٹی کے ترجمان نے حال ہی کہا تھا کہ وہ خواتین کو کھیلوں کی اجازت دینے کے بارے میں غور کر رہے ہیں تاہم اس طرح کے بیان پہلے بھی سامنے آ چکے ہیں۔ تاہم کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے گئے ہیں۔