سال رواں کا ادب کا نوبل انعام ہنگری کے 71 سالہ ادیب لاسلو کراسناہورکائی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ اعلان اس انعام کی حقدار شخصیت کا انتخاب کرنے والی نوبل کمیٹی نے جمعرات نو اکتوبر کے روز سویڈش دارالحکومت میں کیا۔
لاسلو کراسناہورکائی کی 2021ء میں زالسبرگ میں آسٹریا کا ریاستی انعام برائے یورپی ادب وصول کرنے کے موقع پر لی گئی ایک تصویرتصویر: Leo Neumayr/APA/AFP
اشتہار
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کی طرف سے کہا گیا کہ ہنگیرین مصنف لاسلو کراسناہورکائی کو نوبل انعام کے ساتھ 11 ملین سویڈش کرونے (1.2 ملین ڈالر کے برابر) کا نقد انعام بھی دیا جائے گا۔
یہ اعلان کرتے ہوئے سویڈش اکیڈمی کے مستقل سیکرٹری اور ادبی مؤرخ ماٹس مالم نے کہا، ''سال 2025ء کا ادب کا نوبل انعام ہنگری کے مصنف لاسلو کراسناہورکائی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کی وجہ عمومی طور پر دہشت زدہ کر دینے والے ماحول میں فنی تخلیق کی طاقت کی بار بار تصدیق کر دینے والے آرٹ کے طور پر ان کی بصارت سے بھرپور اور اپنی گرفت میں لے لینے والی تصنیفات ہیں۔‘‘
سویڈش اکیڈمی کے مستقل سیکرٹری اور ادبی مؤرخ ماٹس مالم امسالہ نوبل ادب انعام کے حقدار ادیب کے نام کا اعلان کرتے ہوئے تصویر: Jonathan Nackstrand/AFP/Getty Images
ایک ایک جملے میں کھلنے والے ناول
کراسناہورکائی کو 2025ء کا لٹریچر نوبل پرائز دینے کے فیصلے کے اعلان کے ساتھ سویڈش اکیڈمی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ہنگری کے اس ادیب کے لکھے گئے ناول اپنے کرداروں اور کہانی میں اکثر فلسفیانہ ہوتے ہیں، لیکن ساتھ ہی تاریکی میں مزاح اور حیرانی کا سبب بننے والے بھی، جو اکثر ایک ایک جملے سے بھی پوری طرح کھل جاتے ہیں۔‘‘
اشتہار
ساتھ ہی سویڈش اکیڈمی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ لاسلو کراسناہورکائی کی تصنیفات اپنی مجموعی شناخت میں ''قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لینے والی اور بصارت انگیز‘‘ ہیں۔
کراسناہورکائی کی متعدد تصنیفات، جن میں ان کا پہلا ناول Satantango بھی شامل ہے، کو ہنگری کے مشہور فلم ڈائریکٹر بیلا ٹار فلما بھی چکے ہیں۔ ان کے لکھے گئے اولین ناول پر بننے والی اسی نام کی فلم کا دورانیہ 450 منٹ ہے اور وہ آج تک سینما میں دکھائی جانے والی دنیا کی طویل ترین فلموں میں سے ایک ہے۔
لاسلو کراسناہورکائی کی 2022ء میں اٹلی کے شہر وینس میں بین الاقوامی ادبی میلے کے موقع پر لی گئی ایک تصویرتصویر: Mirco Toniolo/Avalon/picture alliance
جذبات اور سوچوں کے بدلتے ہوئے رنگ
اس وقت لاسلو کراسناہورکائی کی عمر 71 برس ہے اور آج کیے گئے نوبل ادب انعام کے اعلان سے پہلے بھی وہ بہت سے مشہور بین الاقوامی ادبی انعامات اور اعزازات حاصل کر چکے ہیں، جن میں انہیں 2015ء میں دیا جانے والا مین بُکر انٹرنیشنل پرائز بھی شامل ہے۔
کراسناہورکائی کی ادبی تخلیقات کے حوالے سے خاص بات یہ بھی ہے کہ انہیں مین بُکر انٹرنیشنل پرائز دیے جانے کے وقت بھی جیوری کے ماہرین نے اعتراف کیا تھا کہ ان کی تحریروں میں عام ''جملے بہت غیر معمولی ہوتے ہیں، جو کبھی بہت مختصر اور کبھی بہت طویل بھی ہوتے ہیں، لیکن اپنی روانی میں جذبات اور سوچوں کے بدلتے ہوئے رنکوں کی عکاسی کرتے ہیں۔‘‘
ادب کے نوبل انعام سے متعلق تین دلچسپ حقائق
01:56
This browser does not support the video element.
اپنے لیے نوبل لٹریچر پرائز کے اعلان کے ساتھ ہنگری کے یہ بہت منفرد ادیب اب دنیا بھر کی ان بہت سی انتہائی سرکردہ ادبی شخصیات میں شامل ہو گئے ہیں، جنہیں ماضی سے لے کر آج تک یہ انعام دیا جا چکا ہے۔
ان میں امریکہ کے ولیم فاکنر، برطانیہ کے دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے ونسٹن چرچل، امریکہ کے ارنسٹ ہیمنگوے، ان کی ہم وطن سیاہ فام مصنفہ ٹونی موریسن اور جاپانی نژاد برطانوی ادیب ایشی گورو بھی شامل ہیں۔
لاسلو کراسناہورکائی کی کتابیںتصویر: Henrik Montgomery/TT News Agency/REUTERS
سال رواں کے نوبل انعامات
ہر سال دیے جانے والے نوبل انعامات کے اعلانات کا سلسلہ اسی ہفتے شروع ہوا تھا۔ پیر کے روز طب کے شعبے میں اس انعام کے تین حقداروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا تھا اور اس کے بعد منگل کے فزکس کے نوبل انعام اور کل بدھ کو کیمیا کے نوبل انعام کا۔
آج کیے جانے والے ادب کے نوبل انعام کے حقدار ادیب کے نام کے اعلان کے بعد کل جمعہ 10 اکتوبر کو امن کے نوبل انعام کی حقدار شخصیت یا شخصیات کے ناموں کا اعلان کیا جائے گا اور پھر آئندہ پیر کے روز سال رواں کے آخری اور اقتصادیات کے شعبے کے نوبل انعام کی حقدار ٹھہرائی جانے والی شخصیت یا شخصیات کے ناموں کا اعلان کیا جائے گا۔
نوبل انعام کی حقدار قرار دی گئی تمام شخصیات کو یہ انعامات 10 دسمبر کو سٹاک ہوم اور اوسلو میں ہونے والی دو مختلف تقریبات میں دیے جائیں گے۔ ان انعامات کی تقسیم سویڈن کے مشہور سائنسدان اور صنعتکار الفریڈ نوبل کی برسی کے موقع پر کی جاتی ہے، جن کا انتقال 10 دسمبر 1896 کو ہوا تھا۔
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔