ادب کا نوبل انعام تنزانیہ کے ادیب عبدالرزاق گورنا کے نام
7 اکتوبر 2021
ادب کا امسالہ نوبل انعام پیدائشی طور پر تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے اور برطانیہ میں مقیم ناول نگار عبدالرزاق گورنا کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وہ گزشتہ چودہ برسوں میں اس اعزاز کے لیے منتخب کردہ پہلے افریقی ادیب ہیں۔
اشتہار
عبدالرزاق گورنا کو 2021ء کا ادب کا نوبل انعام دینے کا اعلان جمعرات سات اکتوبر کو سٹاک ہوم میں سویڈش اکیڈمی کی طرف سے کیا گیا۔ جیوری کے فیصلے کے مطابق اس وقت 72 سالہ گورنا کی ایک ناول نگار کے طور پر خاص بات یہ ہے کہ ان کی تصانیف میں بڑے ہمدردانہ انداز میں اور کسی بھی مصلحت پسندی سے کام لیے بغیر نوآبادیاتی نظام کے اثرات اور ایک مہاجر کی قسمت انتہائی متاثر کن انداز میں یکجا ہو جاتے ہیں۔
گورنا 2007ء میں زمبابوے کی سفید فام مصنفہ ڈورس لیسنگ کو ملنے والے نوبل انعام کے بعد سے ایسے پہلے افریقی ادیب ہیں، جنہیں یہ انعام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ 1986ء میں نائجیرین وولے سوئنکا کے دیے جانے والے نوبل پرائز کے بعد سے زیریں صحارا کے افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایسے دوسرے افریقی نژاد مصنف ہیں، جنہیں اس انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے۔
سب سے مشہور ناول 'جنت‘
اس تنزانین نژاد ادیب کے ناولوں میں سے زیادہ مشہور جنت نامی وہ ناول ہے، جس کی کہانی پہلی عالمی جنگ کے دوران نوآبادیاتی مشرقی افریقہ کی کہانی ہے۔ ان کے اس ناول کو بعد ازاں فکشن کے بکر پرائز کے لیے بھی شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔
عبدالرزاق گورنا ایک مہاجر کے طور پر 1960 کی دہائی میں افریقہ سے اس وقت ہجرت کر گئے تھے، جب زنجبار میں عرب نسل کے شہریوں کا تعاقب شروع کر دیا گیا تھا۔ گورنا زنجبار میں اس دور میں بڑے ہوئے تھے، جب برطانوی نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور پرامن انداز میں حاصل کردہ آزادی کے ساتھ وہاں انقلابی تبدیلی آ گئی تھی۔
تنزانیہ میں اپنے آبائی علاقے سے ترک وطن کے بعد عبدالرزاق گورنا 1984ء میں صرف ایک بار اس وقت واپس زنجبار جا سکے تھے، جب انہیں اپنے والد کے انتقال سے کچھ ہی عرصہ قبل ان سے ملاقات کی اجازت ملی تھی۔
مضبوط امیدوار کن کو سمجھا گیا؟
ادب کے نوبل انعام کا حقدرار کس شاعر، ادیب، ادیبہ یا ایک سے زائد ادبی شخصیات کو ٹھہرایا جائے گا، عام طور پر اس بات کا قبل از وقت کوئی ٹھوس اندازہ لگانا بہت مشکل سمجھا جاتا ہے۔ پھر بھی برٹش بک میکرز کے مطابق آج کے اعلان سے پہلے جن ادبی شخصیات کو سال رواں کے لیے دنیا کا یہ معتبر ترین ادبی انعام دیے جانے کا امکان کافی زیادہ تھا، ان میں کینیا سے اینگوگی وا تھیئونگو، فرانس سے اینی اَیرنو، جاپان سے ہاروکی موراکامی، کینیڈا سے مارگریٹ ایٹ وُڈ اور اینٹی گوئن امریکی رائٹر جمیکا کِن کیڈ کے نام نمایاں تھے۔
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
16 تصاویر1 | 16
گزشتہ دو برسوں کی انعام یافتہ ادبی شخصیات
گزشتہ برس یہ انعام امریکی شاعرہ لوئیزے گلُک کو دیا گیا تھا، جن کے بارے میں اس انعام کی جیوری کا کہنا تھا کہ گلُک کی ادبی تخلیقات کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی شاعری کا اپنا ہی ایک ایسا منفرد لہجہ ہے، جس میں کسی بھی انسان کا انفرادی وجود عالمگیر حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔
لوئیزے گلُک سے پہلے 2019ء میں نوبل لٹریچر پرائز آسٹرین ادیب پیٹر ہانڈکے کو دیا گیا تھا۔ تب اس فیصلے کے خلاف چند ممالک میں اس لیے مظاہرے بھی کیے گئے تھے کہ ہانڈکے نے 1990 کی دہائی میں بلقان کی جنگوں کے دوران سربوں کی کھل کر حمایت کی تھی۔
اشتہار
تقسیم انعامات دسمبر میں
اس سال بھی نوبل ادب انعام کی مستحق شخصیت کو نوبل گولڈ میڈل کے علاوہ 10 ملین سویڈش کرونا کی رقم بھی دی جائے گی، جو تقریباﹰ 1.14 ملین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ اگر کسی شعبے میں نوبل انعام پانے والی شخصیات ایک سے زائد ہوں، تو انعام کی رقم ان میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔
جرمن زبان میں لکھنے والے یہ 11 مصنفین جرمنی کا مؤقر ترین ادبی انعام ’دی جرمن بُک پرائز‘ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ اعزاز فرینکفرٹ کتاب میلے کے دوران جرمن ناشرین اور کتب فروشوں کی ملکی تنظیم کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/olly
فرانک وِٹسل
ان کے ناول The Invention of the Red Army Faction by a Manic-Depressive Teenager in the Summer of 1969 پر انہیں 2015ء کا جرمن بُک پرائز دیا گیا ہے۔ یہ انعام انہیں پیر 12 اکتوبر کو دیا گیا۔ ان کے ناول میں مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک 13 سالہ لڑکے کی سرد جنگ کے دور کی کہانی بیان کی گئی ہے جو گھریلو تشدد اور ماضی سے نبرد آزما ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
لُٹس زائلر
گزشتہ برس لُٹس زائلر کو ان کے ناول ’کرُوسو‘ پر بُک پرائز دیا گیا۔ 2014ء میں یہ ناول دیوار برلن کے انہدام کے تناظر میں لکھا گیا۔ اس کتاب میں آزادی کی تلاش اور سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی سے فرار کی کوششوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
ٹیریزیا مورا
مورا کی تصنیف ’دس اُنگیہوئر‘ یا ’دا مونسٹر‘ نے 2013ء کا بُک پرائز جیتا تھا۔ ٹیریزیا مورا ڈائری اور سفرنامے کی شکل میں لکھتی ہیں، جنہیں ایک گہری سیاہ لکیر سے الگ الگ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق اور ڈپریشن کے حوالے سے طبی خاکے بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں بھی دستیاب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
اُرزُولا کریشَیل
2012ء کا بُک پرائز جیتنے والی اُرزُولا کریشَیل نے جج رچرڈ کورنِٹسر کی زندگی کو اپنے ناول ’ڈسٹرکٹ کورٹ‘ کا موضوع بنایا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ یہودی جج کیوبا سے جلاوطنی ختم کر کے جرمنی واپس لوٹا کیونکہ وہ جرمنی میں دوبارہ جج بننا چاہتا تھا۔ مصنفہ نے اپنے اس ناول کے لیے 10 برس تک تحقیق کی۔
تصویر: dapd
اوئگن رُوگے
اوئگن رُوگے کے 2011ء میں لکھے گئے ناول ’اِن ٹائمز آف فےڈِنگ لائٹ‘ کو بُک پرائز دیا گیا۔ اس کتاب میں مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو 1950ء کی دہائی سے 1989ء میں جرمنی کے اتحاد اور نئی صدی کے آغاز تک کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Dedert
میلِنڈا ناج ابونجی
2010ء کا بُک پرائز جیتنے والی ابونجی کی کتاب ’ٹاؤبن فلِیگن آؤف‘ یا ’فلائی اوے، پیجن‘ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد یورپ میں پیدا ہونے والے تنازعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس ناول میں ایک خاندان کی کہانی کو یوگوسلاویہ کے تنازعے اور سربیا کے صوبے ووج وَودینا میں ہنگیرین نسل سے تعلق رکھنے والی ایک اقلیت کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Eisele
کیتھرین شمِٹ
کیتھرین شمِٹ کی 2009ء میں لکھی جانے والی کتاب ’یو آر ناٹ گوئنگ ٹو ڈائی‘ جرمنی کے اتحاد کے دور سے متعلق ہے جب ایک خاتون کومہ سے بیدار ہوتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی یادیں اور بولنے کی صلاحیت واپس حاصل کر لیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
اُووے ٹَیلکامپ
2008ء میں جیوری نے بُک پرائز کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے اتحاد سے قبل کے آخری سالوں سے متعلق ایک ناول ’ڈئر ٹرُم‘ یا ’دا ٹاور‘ کے مصنف کو دیا۔ یہ ناول ڈریسڈن میں رہنے والے ایک خاندان کو درپیش واقعات پر مشتمل ہے۔ اس ناول پر 2012ء میں ایک فلم بھی بن چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Elsner
جُولیا فرانک
2007ء میں بُک پرائز حاصل کرنے والے ناول کا نام Die Mittagsfrau ہے جسے انگریزی میں ’دا بلائنڈ سائیڈ آف دا ہارٹ‘ کا نام دیا گیا۔ اس ناول میں جولیا فرانک نے دو عالمی جنگوں کے دوران کے عرصے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی کہانی پیش کی ہے۔ یہ ناول 34 مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Guillem Lopez
کیتھرینا ہاکر
2006ء کا بُک پرائز جیتنے والی کیتھرینا ہاکر نے جوان لوگوں کی کہانیاں Die Habenichtse یعنی ’دا ہیو ناٹس‘ The Have-Nots میں بیان کی ہیں۔ 30 برس کے لگ بھگ عمر کے ایسے لوگوں کی کہانیاں جو اور تو بہت کچھ جانتے ہیں مگر اپنے آپ کو نہیں۔ ان لوگوں کو کیسے رہنا چاہیے، ان کی اقدار کیا ہیں اور انہیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے، یہ اس ناول کے بنیادی سوالات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E.Elsner
آرنو گائیگر
2005ء میں سب سے پہلا جرمن بُک پرائز آرنو گائیگر کو ان کے ناول ’اَیس گیہت اُنس گُٹ‘ یعنی ’وی آر ڈوئنگ وَیل‘ پر دیا گیا۔ اس ناول کی کہانی ویانا سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی تین نسلوں کے گرد گھومتی ہے۔
نوبل انعامات ہر سال چھ مختلف شعبوں میں دیے جاتے ہیں۔ ان کے حق دار افراد کے ناموں کا اعلان روایتی طور پر اکتوبر کے اوائل میں کیا جاتا ہے، جس کے بعد یہ اعزازات ہر سال دسمبر میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔
سال رواں کے باقی ماندہ دو انعامات
امسالہ نوبل انعامات میں سے رواں ہفتے پیر کے روز طب، منگل کے روز فزکس اور بدھ کے روز کیمسٹری کے انعام کے حقدار سائنس دانوں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ آج ادب کے نوبل انعام کے لیے جیوری کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد کل جمعے کو امن کے نوبل انعام کی حقدار شخصیت یا شخصیات کے ناموں کا اعلان بھی ہو جائے گا۔
ان انعامات کے سلسلے کا رواں برس کا آخری اعلان آئندہ پیر کو کیا جائے گا، جب اس سال کا معیشت کا نوبل انعام جیتنے والے ماہر یا ماہرین کے نام بھی سامنے آ جائیں گے۔
م م / ش ح (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)
گنٹر گراس کی زندگی کے مختلف اَدوار
جرمنی کے اہم ترین ادیبوں میں شمار ہونے والے نوبل انعام یافتہ گنٹر گراس پیر تیرہ اپریل کو ستاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ سولہ اکتوبر 1927ء کو جنم لینے والے گراس کا انتقال شمالی جرمن شہر لیوییک کے ایک ہسپتال میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گنٹر گراس کا سوگ
گنٹر گراس دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اہم ترین جرمن ادیبوں میں سے ایک تھے۔ سیاسی طور پر سرگرم دانشور کے طور پر وہ کئی نزاعی مباحث کے آغاز کا باعث بنے۔ اُنہوں نے جو بحثیں چھیڑیں، اُن کا تعلق نیشنل سوشلزم، جرمن قوم کے اجتماعی احساسِ جرم اور دورِ حاضر کی سیاست سے ہوا کرتا تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/P. Armestre
ادیب کے طور پر شہرت کا آغاز
1959ء میں اُن کے ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ 1979ء میں اس پر فلم بھی بنی۔ 1961ء میں ’کیٹ اینڈ ماؤس‘ اور 1963ء میں ’ڈاگز ایئرز‘ کے ساتھ گراس نے اپنی تین حصوں پر مشتمل ’گڈانسک ٹرایالوجی‘ مکمل کر لی، جس میں جرمن قوم کے اجتماعی احساسِ جرم اور ہٹلر دور کا احاطہ کیا گیا تھا۔
تصویر: ullstein - Tele-Winkler
گنٹر گراس کے لیے ادب کا نوبل انعام
چار ہی سال بعد 1999ء میں گنٹر گراس کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ گنٹر گراس نے اپنی تحریروں میں تاریخ کے فراموش کردہ چہرے کو بیان کیا ہے اور یہ کہ اُن کے ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ کا شمار بیس ویں صدی کی سدا بہار ادبی تخلیقات میں ہوا کرے گا۔
تصویر: AP
مشرقی پرشیا میں لڑکپن کے دن
گراس سولہ اکتوبر 1927ء کو مشرقی پرشیا میں پیدا ہوئے۔ وہ پولینڈ میں واقع مقام گڈانسک میں ایک عام سے گھرانے میں پلے بڑھے۔ اپنے لڑکپن میں وہ ہٹلر کے نوعمروں کے لیے بنائے گئے یونٹ HJ کے رکن رہے۔ اسی یونٹ کے جریدے میں اُن کی ابتدائی کہانیاں شائع ہوئیں۔
تصویر: Getty Images
نازی جماعت کے دستے میں رکنیت
بہت بعد میں اُنہوں نے بتایا تھا کہ گھر والوں کے دباؤ سے بچ نکلنے کے لیے وہ رضاکارانہ طور پر فوج میں بھرتی ہو گئے تھے۔ 1944ء میں سترہ سال کی عمر میں وہ ’وافن ایس ایس‘ میں شامل ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر وہ امریکیوں کے جنگی قیدی بن گئے۔
تصویر: Sean Gallup/Getty Images
آرٹسٹ کے طور پر تربیت
جنگ کے بعد انہوں نے پتھر سے مجسمے تخلیق کرنے کی تربیت شروع کی اور شہر ڈسلڈورف میں گرافک اور مجسمہ سازی کی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مصروف ہو گئے۔ اُن کی رہائش برلن اور پیرس میں بھی رہی اور اُن کے مجسموں اور گرافک شاہکاروں کی نمائشیں بھی ہوئیں۔ وہ عمر بھر فن کے شعبے سے منسلک رہے۔ وہ اپنی کتابوں کے سرورق خود بناتے تھے۔
تصویر: AP
’گروپ سینتالیس‘ میں شمولیت
بیس ویں صدی کے پانچویں عشرے میں گراس کی توجہ زیادہ سے زیادہ ادب کی جانب مبذول ہوئی۔ 1955ء میں وہ ادیبوں کی ایک با اثر جرمن تنظیم ’گروپ سینتالیس‘ کی نظروں میں آئے۔ اسی گروپ کی ایک ادبی نشست میں اُنہوں نے اپنے ایک غیر طبع شُدہ ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ میں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سیاسی سرگرمیاں
گراس سیاست کے شعبے میں بھی سرگرمِ عمل رہے اور جرمنی اور پولینڈ کے درمیان دوستی کے لیے کوشاں رہے۔ ساٹھ کے عشرے میں جرمن سوشل ڈیمرکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی رکنیت حاصل کیے بغیر وہ اس جماعت کی انتخابی مہم میں سرگرم رہے۔ اگرچہ وہ محض 1982ء تا 1992ء اس جماعت کے رکن رہے لیکن اس کی حمایت وہ عمر بھر کرتے رہے۔
تصویر: picture alliance/Dieter Klar
گراس تنقید کی زَد میں
1995ء میں معروف نقاد مارسیل رائش رانیسکی نے گراس کے ناول ’ٹُو فار افیلڈ‘ کو نہ صوف ادبی اعتبار سے بلکہ سچ مُچ اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ اس سیاسی ناول میں 1848ء سے لے کر دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد تک کی تاریخ بیان کی گئی تھی تاہم تاریخ کو مبینہ طور پر غلط رنگ میں پیش کرنے کے الزام میں گراس شدید بحث و تمحیص کی زَد میں رہے۔
جرمن تاریخ پر ایک اور شاہکار
2002ء میں گراس نے ایک اور ادبی سنگِ میل عبور کیا۔ یہ تھا اُن کا نیا ناول ’کرَیب واک‘، جسے بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس میں 1945ء میں ممکنہ طور پر نو ہزار انسانوں کے ساتھ غرق ہو جانے والے بحری جہاز ’ولہیلم گُسٹلوف‘ اور مشرقی یورپ سے جرمنوں کو گھر بدر کرنے کا ذکر کیا گیا تھا۔ نقادوں نے گراس کو اتنے مشکل موضوع پر قلم اٹھانے اور واقعات کی انتہائی مؤثر تصویر کشی کے لیے سراہا۔
تصویر: ullstein bild
اعتبار جاتا رہا؟
2006ء میں اُن کی آپ بیتی ’پیلنگ دی اونین‘ نے جرمنی میں ایک نئی نزاعی بحث چھیڑ دی۔ اس کتاب میں اُنہوں نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ ہٹلر کے ’وافن ایس ایس‘ یونٹ میں شامل رہے تھے۔ تب ناقدین نے اُن کی اخلاقی دیانت اور اعتبار پر سوالیہ نشان لگا دیے۔
تصویر: picture-alliance/SCHROEWIG
اسرائیل پر تنقید
2007ء میں گراس کی 80 ویں سالگرہ پر اُنہیں ایک بار پھر ایک عظیم ادیب کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ اپریل 2012ء میں اُن کی ایک نظم ’جو کہا جانا چاہیے‘ میں اسرائیل کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا، جیسے ہی یہ نظم شائع ہوئی، ہر طرف سے گراس پر تنقید شروع ہو گئی۔ اس نظم کی ادبی ساخت کو بھی نشانہ بنایا گیا اور گراس کو سیاسی معاملات سے ناواقفیت اور سامی دشمنی کا بھی الزام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آخر وقت تک مزاحمت اور تنقید کرتے رہے
دسمبر 2013ء میں جن 562 شخصیات نے ’رائٹرز اگینسٹ ماس سرویلینس‘ کی اپیل پر دستخط کیے، اُن میں گراس بھی شامل تھے۔ اس اپیل میں امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر جاسوسی کی سرگرمیوں کے خلاف مزاحمت پر ابھارا گیا تھا۔ وہ آخر وقت تک ایک ایسے دانشور رہے، جو اپنے موقف کو نمایاں کرنے کے لیے مزاحمت کرتے اور الجھتے رہے۔ گنٹر گراس پیر تیرہ اپریل کو ستاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔