گزشتہ برس لٹریچر کا نوبل پرائز مؤخر کر دیا گیا تھا کیونکہ انعام دینے والے ادارے کو جنسی اسکینڈل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سویڈش ادیبوں نے اس برس کسی ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے ایک متبادل متعارف کرایا ہے۔
اشتہار
سویڈن کے ایک سو سے زائد ادیبوں، صحافیوں اور دانشووں نے ایک مشترکہ فورم کے تحت نوبل انعام برائے ادب کا متبادل معتارف کرایا ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ رواں برس کے دوران اس نئے پرائز کا اعلان کب کیا جائے گا اور اس کا نام کیا ہو گا۔ اس کے علاوہ اس پرائز کے ساتھ انعامی رقم کتنی ہو گی۔ یہ متبادل لٹریری انعام سویڈش اکیڈیمی کے خلاف بطور احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ادب کے نوبل انعام کے لیے کسی ادیب کا انتخاب سویڈش اکیڈیمی کیا کرتی ہے۔ گزشتہ برس اکیڈیمی کو ایک شدید بحران کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا جب اِس کے انتظامی منصب پر فائز ایک اہم شخصیت پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ کئی برسوں سے کئی خواتین کا جنسی استحصال کا سلسلہ جاری رکھے رہے تھے۔ اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے نتیجے ہی میں نیا لٹریری پرائز متعارف کرایا گیا ہے۔
سویڈش دانشوروں کا کہنا ہے کہ نیا پرائز کسی بھی تعصب، غیر مناسب گستاخانہ رویے اور جنسی رویوں کی نفی کرتے ہوئے دیا جائے گا۔ اس مناسبت سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ لٹریچر اور ثقافت اپنے وسیع تر دائرے میں جمہوریت، شفافیت، ہمدردی اور عزت و وقار کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ نوبل پرائز کا متبادل بغیر کسی فائدے یا منفعت کے دیا جائے گا۔
یہ امر اہم ہے کہ خواتین کے ساتھ جنسی استحصال کے خلاف چلائی جانے والی تحریک #می ٹُو اب کسی ایک ملک کے لیے مخصوص ہو کر نہیں رہ گئی بلکہ اِس نے عالمگیر تحریک کا روپ دھار لیا ہے۔ ہر ملک میں اس کی گونج شد و مد سے سنی جا رہی ہے۔
اسی تحریک کا نزلہ جب سویڈش اکیڈیمی پر گرا تو وہ بھیانک کہانی سامنے آئی کہ اس سے وابستہ ایک اہم فرانسیسی ثقافتی شخصیت مبینہ طور پر ڈیڑھ درجن خواتین کے جنسی استحصال میں ملوث رہے ہیں۔ اس الزام کے سامنے آنے پر سویڈش اکیڈمی کا وقار بھی زمین بوس ہو گیا۔
سویڈش اکیڈیمی سے وابستہ اٹھارہ افراد نے احساس شرمندگی کے تحت اپنے اپنے منصب کو خیرباد کہہ دیا۔ ان میں شامل چھ خواتین نے بھی استعفے دے دیے اور ان میں اس کی پہلی سیکرٹری سارا ڈانیوس بھی شامل تھیں۔ گزشتہ ستر برسوں میں پہلی مرتبہ یہ معتبر پرائز متنازعہ حیثیت اختیار کر گیا۔
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔