جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے شامی صوبے ادلب میں فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو اس بحران کا کثیرالجہتی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
اشتہار
شام کے صوبے ادلب میں روسی حمایت یافتہ شامی فوجوں اور ترک نواز باغیوں کے درمیان ہونے والی شدید لڑائی علاقے کے لیے انسانیت سوز بحران کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ شام کے صوبے ادلب میں ہونے والے حملوں کا، ’خاتمہ بہت ضروی ہے‘۔ ایک جرمن اخبار کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس بحران کا سیاسی حل تلاش کیا جا نا چاہیے۔
ہائیکو ماس نے جنگ زدہ صوبے ادلب میں عام شہریوں پر ہونے والے حالیہ حملوں کو ’انسانیت سوز تباہی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہاں سے آنے والی تصویروں سے ان میں غصے اور مایوسی کے جذبات بیدارہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں صوبہ ادلب میں روس کی حمایت یافتہ صدر بشار الاسد کی فوجوں اور ترکی کے حامی باغیوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں مزید شدت پیدا ہوئی ہے۔ بشار الاسد کی فوج ادلب پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے، جس پر باغیوں کا قبضہ ہے لیکن ترکی اس امید کے ساتھ باغیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے کہ ادلب شام کے کنٹرول سے باہر رہے، بصورت دیگر علاقے کے لاکھوں لوگ پناہ کی تلاش میں اس کی سرحد میں داخل ہونے پر مجبور ہوں گے۔ اس لڑائی میں بچوں سمیت بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
جرمن وزیر خارجہ ماس نے کہا کہ جنگ کے خاتمے کے لیے ترکی، روس اور بشار الاسد کو ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جنگ روکنے کے لیے ترکی اور روس کے درمیان ایک نظام ہے۔ بد قسمتی سے فی الحال ہم اس کے مخالف ہیں۔‘‘ جرمنی نے اس سلسلے میں روس کو اپنا مؤقف پہلے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس بارے میں پہلے بشار الاسد کی حکومت پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرے۔ لیکن شرط یہ کہ ’اسد پہلے یہ تسلیم کریں کہ ان کی طرفسے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے ایک غیر محفوظ آبادی والے علاقے میں ہولناک ہلاکتیں ہوئیں۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس تنازعے میں جرمنی کا بھی ایک اہم کردار ہے اور جنگ کے خاتمے کے لیے وہ اپنی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ تشدد میں اضافے سے مہاجرت میں بھی شدت آئے گی اور ایسے لوگ ترکی کی طرف پناہ کے لیے جائیں گے، جہاں پہلے ہی سے تقریبا تیس لاکھ پناہ گزیں موجود ہیں۔
ترکی میں ڈی ڈبلیو کی نمائندہ جولیا ہان کا کہنا ہے کہ جرمن وزير خارجہ ہائیکو ماس نے انسانی بحران سے متعلق جو باتیں کہیں ہیں، وہ عالمی برادری اور مقامی رائے کے مطابق ہیں، جیسے اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ دسمبر 2019 سے اب تک تقریبا ساتھ لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔