1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ادلب پر فضائی حملے میں متعدد شہری ہلاک

3 فروری 2020

 شام کے صوبہ ادلب میں روسی اور شامی حکومت کی طرف سے کی گئی بمباری کے نتیجے میں کئی بچوں سمیت کم از کم چودہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ سیریئن آبزرویٹری نے ان حملوں کی تصدیق کر دی ہے۔

Konflikt in Syrien
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Alkharboutli

برطانیہ سے سرگرم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق روسی اور شامی حکومت کے طیاروں نے اتوار کے روز شمال مغربی ادلب صوبے کو نشانہ بنایا جس میں کم از کم چودہ عام شہری ہلاک ہوگئے۔ بتایا گیا ہے کہ سرمین قصبے میں مارے جانے والے آٹھ افراد میں سے سات ایک ہی خاندان کے فرد تھے۔ جرمنی نے ان حملوں کو فوراً بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ شام میں انسانی المیے کی صورت حال پہلے ہی انتہائی ''تباہ کن" ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وہ منظر انتہائی دلخراش تھا جب ایک باپ کے سامنے ہی اس کے دو معصوم بچوں کو ملبے سے نکالا جارہا تھا، جو موت کی آغوش میں جاچکے تھے۔ غمزدہ والد نے بتایا”میں آج صبح ہی اپنے گھر والوں کو یہاں سے لے جانا چاہتا تھا لیکن میری  اہلیہ نے مجھ سے کہا کہ آپ کا م پر چلے جائیں۔ میں نے ایک ڈرائیور کو کار لے کر بھیجا کہ وہ گھر کا سامان لے آئے لیکن جب تک کار میر ے گھر پہنچتی اس سے پہلے ہی میرا گھر بم حملے میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکاتھا۔ یہ انتہائی بھیانک تباہی ہے۔"

خیال رہے کہ روسی حمایت یافتہ شامی صدر بشارالاسد کی حکومت باغیوں کے آخری گڑھ سمجھے جانے والے ادلب پر قبضہ کرنے کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل فوجی کارروائی کررہی ہے۔ اس میں سینکڑوں  عام شہری  ہلاک اور تین لاکھ 88 ہزار سے زائد افرادبے گھر ہوچکے ہیں۔

بشارالاسد حکومت کی مخالف ترکی نے ادلب میں بارہ نگران چوکیوں کوچھوڑنے سے انکار کردیا ہےتصویر: AFP via Getty Images

گزشتہ دو برسوں کے دوران ہزاروں سخت گیر باغی شام کے دیگر حصوں سے ادلب منتقل ہو گئے ہیں۔ اس منتقلی کے نتیجے میں ادلب اب باغیوں کا آخری اور اہم گڑھ بن گیا ہے۔ جرمنی نے روس اور شام سے اپیل کی ہے کہ وہ فضائی حملے بند کرے۔ جرمن وزیر خارجہ ہیئکو ماس کا کہنا تھا” ادلب میں انسانی صورت حال پہلے سے ہی انتہائی تباہ کن ہے اور جنگ کی وجہ سے یہ مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔" دریں اثناء سینکڑوں گاڑیوں پر مشتمل ترک فوجی قافلہ اتوار کے روز شام میں داخل ہوا۔ انہیں ادلب اور پڑوسی صوبہ حلب میں تعینات کیا گیا ہے۔

بشارالاسد حکومت کی مخالف ترکی نے ادلب میں بارہ نگران چوکیوں کوچھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ ماسکو کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے اسے ان چوکیوں پر اپنے فوجی اہلکار تعینات کرنے کا حق حاصل ہے۔  تاہم شامی حکومت ترکی کی دلیل سے متفق نہیں اور گزتہ دسمبر میں اس نے ان میں سے ایک چوکی کا محاصرہ کر لیا  تھا، جس کے بعد تصادم کا ایک نیا محاذ کھل جانے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔

خیال رہے کہ سن 2011 سے جاری جنگ کے نتیجے میں تین لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔

ج ا/ ع ا (اے پی، اے ایف پی)

ادلب میں زندگی تنگ ہوتی ہوئی

02:52

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں