ادویات کی قلت مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے، جرمن ڈاکٹرز
22 دسمبر 2022
جرمن وزیر صحت نے ادویات کی قلت کو کم کرنے اور فراہمی میں اضافے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ تاہم صحت کے لیے کام کرنے والے گروپوں کو لگتا ہے کہ صورتحال میں جلد بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اشتہار
جرمنی میں صحت اور طب سے متعلق انجمنوں نے 21 دسمبر بدھ کے روز خبردار کیا کہ گرچہ حکومت نے ادویات کی فراہمی کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کے باوجود ملک میں جاری دواؤں کی قلت مہینوں تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔
موسم سرما میں کووڈ 19، انفلوئنزا، تنفس کو ہونے والے وائرس انفیکشن (آر ایس وی) اور دیگر بیماریوں میں اضافے کی وجہ سے جرمنی کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر بہت زیادہ بوجھ پڑا ہے۔ اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر بچے ہوئے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی نامہ نگار جولیا سودیلی کا کہنا ہے کہ برلن کے 'چیریٹی ہسپتال کے بہت سے ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کو بچوں کے وارڈز میں منتقل کیا گیا ہے تاکہ انفیکشن کے بڑھتے ہوئے کیسز کا مقابلہ کیا جا سکے۔
صحت کے بحران کی شدت کے سبب ہی ادویات کی فراہمی میں قلت کو ختم کرنا ایک ہنگامی مسئلہ بن گیا ہے، لیکن طبی ماہرین کو اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ مسائل اور رکاوٹیں جلدی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔
فیملی میڈیکل پریکٹس سب سے زیادہ متاثر ہو نے کا خدشہ
ڈسلڈورف کی نارتھ رائن فارماسسٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھامس پریس نے بدھ کے روز جرمن اخبار 'رائنشے پوسٹ' کو بتایا: ''سپلائی کی صورتحال بہتر ہونے میں کئی ماہ لگیں گے۔''
جرمن ایسوسی ایشن آف جنرل پریکٹیشنرز کی نکولا بوہلنگر گوپفارتھ نے بھی اسی اخبار سے بات چیت میں کہا کہ سپلائی کے مسائل جاری رہیں گے اور اس کا فیملی میڈیکل پریکٹس پر خاصا اثر پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ادویات کی قلت کے سبب فیملی کی سطح پر دواؤں کا جو چلن ہے، ان کے لیے متبادل ادویات کی تلاش میں بہت زیادہ وقت صرف کرنا پڑے گا تاکہ جن دواؤں کی سپلائی کم ہے اس کی جگہ کوئی دوسری دوا استعمال کی جا سکے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ بعض معاملات میں بیمار مریضوں کے لیے ''کوئی متبادل بھی میسر نہیں ہوتا ہے۔''
اشتہار
جرمن حکومت کا رد عمل
جرمن وزیر صحت کارل لاؤٹرباخ نے رواں ہفتے کے اوائل میں سپلائی کی رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ اس میں ادویات کی قیمت کی حدود کو ختم کرنا اور ہیلتھ انشورنس فرموں کو دواوں کے لیے زیادہ پیسے لینے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔
حکومت کی یہ پالیسیاں ادویات فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لیے جرمنی کو مزید پرکشش بنانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم وزیر صحت کے ان اقدامات پر یہ کہہ کر نکتہ چینی بھی ہو رہی ہے کہ انہوں نے کرسمس کے موقع پر دواسازی کی صنعت کو ایک تحفہ فراہم کیا ہے۔
وزیر صحت اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: ''میرے خیال میں یہ بچوں کے لیے پہلا اور اہم تحفہ ہے۔'' لاؤٹرباخ کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ حکومت کے نئے اقدامات کا ''اثر بہت جلد نظر آنے لگے گا۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، ای پی ڈی)
جرمن باشندے کس طرح سردی کا مقابلہ کرتے ہیں
جرمنی کا نظام صحت بہت سے ممالک سے بہت بہتر اور معیاری ہے اس لیے جرمن باشندوں کو خود اپنا علاج کرنے کی ضرورت نہیں۔
تصویر: Fotowerk - Fotolia.com
پنڈلی کے گرد بندھی پٹی
اگر آپ بستر پر پڑے کسی جرمن کو دیکھیں جس کی پنڈلوں پر گیلی پٹی بندھی ہو تو سمجھ جائیں کہ وہ بُخار میں مبتلا ہے۔ یہ بخار کے خلاف ایک تیر با ہدف علاج ثابت ہوتا ہے۔ پیروں پر ماتھے کی نسبت ٹھنڈی اورنم پٹی رکھنے کی زیادہ جگہ ہوتی ہے اس لیے بخار کم کرنے کا یہ طریقہ بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔ جرمن ڈاکٹروں کی دو تاکید عام ہے۔ پٹی کے لیے برف کی بجائے نیم گرم پانی استعمال کریں اور پٹی کو 30 منٹ بعد ہٹا دیں۔
تصویر: Fotolia/photophonie
اسکارف سگنل
گلے کے گرد ڈھیلا ڈھالا سا بندھا ہوا اسکارف عموماً فیشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن جب گلے کے گرد اسکارف کو تنگ کر کے باندھ لیا جائے تو یہ بیماری کی علامت بن جاتا ہے۔ جرمن باشندے اسکارف کا استعمال گلے کی سوزش کو دور کرنے اور اسے ٹونسیلائیٹس یا ورم لوزہ سے بچنے کے لیے کرتے ہیں۔ وہ اسکارف کا استعمال جرمن باشندے اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ان کی گردن کی جلد جسم کی حساس ترین جلد میں شمار ہوتی۔
تصویر: Fotolia/Creativa
ہوا کا لگنا
عام طور سے جرمن باشندے یہ کہتے ہیں کہ کراس وینٹیلیشن یا مخالف سمتوں سے چلنے والی ہوا لگنے کے سبب گردن، سر اور شانوں میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ جرمن ماہر سمیات اورٹون ایڈمس اس خیال کو لغو قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول نا تو اس بات کا کوئی ثبوت پایا جاتا ہے کہ پشت گردن پر ہوا لگنے سے جسم کے درجہ حرارت میں تبدیلی آتی ہے نا ہی سرد ہوا لگنے سے نزلہ زکام جنم لینے کا کوئی تعلق بنتا ہے۔
تصویر: iTake Images - Fotolia.com
پریٹسل، رسک اور کولا
رس اور پریٹسل اسٹکس ممکنہ بیماریوں سے بچاؤ کا موثر ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ جرمن انہیں اسحال اور متلی یا قے کے بعد کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ اسنیکس کولا کلاسک کے ساتھ سب سے بہتر طور پر گلے سے نیچے اترتی ہیں۔ پریٹسلز پر لگا نمک خاص طور سے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے اس لیے کوکا کولا سے پرہیز کرتے ہوئے کھانے کی مذکورہ اشیا پر توجہ دینی چاہیے۔ کیفین ویسے بھی پیشاب آور ہوتی ہے۔
تصویر: Fotolia/ag visuell
کامیلا کا پودا
سردی، نزلہ زکام اور سر درد اور دیگر تکالیف کا موثر علاج جرمن باشندے زیادہ تر کامیلا نمک اور گرم پانی سے غسل سے کرتے ہیں تاہم ہر کوئی اِس نادر پودے یعنی کامیلا سےاستفادہ کر سکتا ہے۔ اس کے پھول سے ایک خاص قسم کا کیمیائی مادا خارج ہوتا ہے جو نظام تنفس کی سوزش، گلے اور پھیپھڑوں کی سوزش اور کھانسی وغیرہ میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: Fotolia/Ariwasabi
مصنوعی بخار
کسی وائرس کو کس طرح مستقل طور پر مارا جا سکتا ہے؟ بہت ہی گرم ساؤنا یا حمام بناوٹی بخار کی کیفیت پیدا کر کے نزلے زکام کے وائرس کا قتل کر سکتا ہے؟ ماہر سمیات یا وائرولوجسٹ ایڈمس کا جواب نفی میں ہے۔ بخار یا جسم کے بہت بڑھے ہوئے درجہ حرارت سے وائرس کو نہیں مارا جا سکتا۔ اسی طرح ساؤنا یا گرم حمام جسم کے درجہ حرارت کو اُس حد نہیں بڑھا سکتا جس سے زکام کا سبب بننے والے وائرس مر سکیں۔
تصویر: Fotolia/Spofi
دودھ اور شہد
خُشک کھانسی کا موثرعلاج گرم دودھ اور شہد ہے۔ جرمنی میں اسے گھریلو خواتین کا قدیم نسخہ کہا جاتا ہے، جس سے جدید سائنس بھی اتفاق کرتی ہے۔ امریکا میں 2007 ء اور 2012 ء میں ہونے والے مطالعاتی جائزے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ گرم دودھ میں شہد ڈال کر بچوں کو پلانے سے راتوں رات اُن کی کھانسی ، سینےمیں بلغم میں واضح کمی آتی ہے۔ متوازن مقدار میں سادہ شہد کا استعمال مصنوعی ذائقہ دار شہد سے کہیں زیادہ موثرہوتا ہے۔
جرمنی میں پیاز اور لہسن کی بوُ کو بُرا سمجھا جاتا ہے تاہم پیاز کا استعمال ہر گھر میں ہونے لگا ہے کیونکہ پیاز کا عرق ہوا کے ذریعے پھیلنے والے متعدد وائرس کے خلاف موثر ثابت ہوا ہے۔
تصویر: Christian Jung - Fotolia.com
جنس اور درد
تمام جرمن خواتین کا کہنا ہے کہ جب ایک مرد بیمار پڑ جائے تو وہ ایک بلبلاتے بچے سے کم نہیں ہوتا۔ کیا یہ مفروضہ صحیح ہے؟ امریکا کی اسٹینفورڈ پونیورسٹی کے ایک مطالعاتی جائزے کی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ خواتین درد کی شدت زیادہ محسوس کرتی ہیں یا کم از کم اس امر کا اقرار کرتی ہیں کہ انہیں درد ہو رہا ہے۔ تاہم کون سی جنس درد زیادہ شدت سے محسوس کرتی ہے، اس بارے میں سائنس خاموش ہے۔