مشرقی یورپی ملک رومانیہ میں ایک سابقہ جیل میں آرٹ پینٹنگز کی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ سابقہ جیل کمیونسٹ دور میں سیاسی قیدیوں پر ٹارچر یا اُن کی ماورائے قانون ہلاکتوں کے لیے بدنام تھی۔
اشتہار
جنوبی رومانیہ کی سابقہ جیل پیٹیسی میں گیارہ سنگ تراشی اور اُبھری نقاشی کے خوبصورت نمونے رکھے گئے ہیں۔ یہ نمائشی اشیاء نمائش دیکھنے والوں کو خاص طورسے سن 1949 سے لے کر سن 1951 کے دوران اس جیل میں مقید قیدیوں پر ہونے والے تشدد اور اُن کی غیرقانونی ہلاکتوں کی یاد دلائیں گے۔
نمائش میں رکھے گئے سنگتراشی اور دھات یا لکڑی پر ابھرے ہوئے نقوش کے تمام نمونے اُس خوفناک دور سے متعلق ہیں۔
مذکورہ جیل میں رکھے گئے قیدیوں کے ساتھ ہونے والی اذیت رسانی اور تشدد کے عمل کو ’پیٹیسی ایکسپیریمنٹ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ان قیدیوں کو کمیونسٹ حکومت کی مخالفت کرنے کے سبب ٹارچر کرنے کے ساتھ ساتھ ذلیل و رسوا بھی کیا جاتا تھا۔
قید کے دوران مار پیٹ کے علاوہ ان قیدیوں کو انسانی فُضلہ کھانے پر مجبور کیا جاتا تھا اور انہیں بجلی کے جھٹکے دیے جاتے تھے اور بھوکا پیاسا بھی رکھا جاتا تھا۔ ان قیدیوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں معلومات جیل حکام کو فراہم کریں۔ اذیت رسانی اور تشدد کے سبب کم از کم ایک سو قیدیوں کی موت واقع ہوئی تھی۔
اس نمائش کو دیکھنے والوں میں اُس دور کے سیاسی قیدی بھی شامل ہیں۔ پیٹیسی جیل میں تقریباً پانچ لاکھ افراد کو مختلف اوقات میں مقید کیا گیا تھا۔ ان میں کئی کمیونسٹ دور سے قبل کے دانشور اور سیاسی کارکن تھے۔ یہ جیل سن 1964 تک فعال رہی اور جیل کے تمام قیدیوں کو اُس وقت رہا کر دیا گیا جب انہیں عام معافی دے دی گئی تھی۔
گم شُدہ فن پارے ’لاسٹ آرٹ‘ کی وَیب سائٹ پر
انٹرنیٹ پلیٹ فارم lostart.de پر فنی شاہکاروں کے تاجر ہِلڈے برانڈ گُرلٹ کے اُس ذخیرے میں سے مزید فن پارے دیکھے جا سکتے ہیں، جو اُس کے بیٹے کورنیلئس گُرلٹ کے اپارٹمنٹ سے ملے اور ضبط کیے جا چکے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
آنری ماتِیس کی ’بیٹھی ہوئی عورت‘
انٹرنیٹ پلیٹ فارم lostart.de پر جو مزید فن پارے دیکھے جا سکتے ہیں، اُن میں فنی شاہکاروں کے تاجر ہِلڈے برانڈ گُرلٹ کے بیٹے کورنیلئس گُرلٹ کے گھر سے ملنے والی آنری ماتِیس کی بنائی ہوئی پینٹنگ ’بیٹھی ہوئی عورت‘ بھی شامل ہے۔ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ یہ نیشنل سوشلسٹ دور میں لُوٹے گئے فن پارے ہیں، حکام نے فروری 2012ء میں انہیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
مارک شاگال کی پینٹنگ ’تمثیلی منظر‘
کورنیلئس گُرلٹ کے ذخیرے میں سے مشہور فرانسیسی مصور مارک شاگال (1887ء تا 1985ء) کی پینٹنگ ’تمثیلی منظر‘ بھی ملی ہے۔ بیس ویں صدی کے اہم ترین مصورں میں شمار ہونے والے اظہاریت پسند مصور شاگال روسی نژاد یہودی تھے اور اُنہیں ’مصورں کی صف میں موجود شاعر‘ کہا جاتا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ولہیلم لاخنیٹ کی ’میز پر بیٹھی لڑکی‘
جرمن مصور ولہیلم لاخنیٹ (1899ء تا 1962ء) نے زیادہ تر شہر ڈریسڈن میں کام کیا۔ اُنہوں نے اپنے فن پاروں کے ذریعے جزوی طور پر نیشنل سوشلزم کی کھلی مخالفت کی۔ 1933ء میں اُنہیں گرفتار کر لیا گیا اور اُن کے چند فن پاروں کو ’بگڑا ہوا آرٹ‘ قرار دے کر ضبط کر لیا گیا۔ فروری 1945ء میں ڈریسڈن پر فضائی بمباری کے نتیجے میں اُن کے زیادہ تر شاہکار تباہ ہو گئے۔ اب اُن میں سے چند ایک پھر سے منظر عام پر آئے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
آٹو گریبل کی ’نقاب میں‘
جرمن مصور آٹو گریبل (1895 تا 1972ء) کی تخلیقات کو جرمنی میں آرٹ کی تحریک ’نیو آبجیکٹیویٹی‘ یا ’نئی معروضیت‘ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد وہ KPD (کمیونسٹ پارٹی آف جرمنی) کے رکن بنے، بعد میں ڈریسڈن میں ’رَیڈ گروپ‘ کے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ 1933ء میں اُنہیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور اُن کے فن پاروں کو کمیونسٹ آرٹ قرار دے کر رَد کر دیا گیا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ایرش فراس کی ’ماں اور بچہ‘
مصور ایرش فراس جرمن مصوروں کی ’لاپتہ نسل‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیشنل سوشلسٹ پروپیگنڈا نے اُن کی فنی سرگرمیوں کو بھی بڑے پیمانے پر محدود بنا دیا تھا۔ وہ ڈریسڈن کے فنکاروں کی ایک تنظیم کی مجلس عاملہ میں شامل تھے۔ اس تنظیم کو نیشنل سوشلسٹ حکومت نے تحلیل کر دیا تھا اور اُنہیں فنکار کے تشخص سے محروم کر دیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
لُڈوِک گوڈن شویگ کی ’مردانہ چہرہ‘
جرمن مجسمہ ساز لُڈوِک گوڈن شویگ اَیچنگز بنانے کے بھی ماہر تھے۔ اُن کی بنائی ہوئی اس گرافک تصویر کے ساتھ ساتھ ایک زنانہ تصویر بھی گُرلِٹ کے ذخیرے سے ملی ہے۔ امکان غالب ہے کہ یہ دونوں تصاویر بھی ’لوٹی ہوئی تصاویر‘ میں سے ہیں۔ ان تصاویر کے سابقہ مالکان کے ورثاء انہیں واپس مانگنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
فرِٹس ماسکوس کی ’سوچتی ہوئی عورت‘
جرمن مجسمہ ساز فرِٹس ماسکوس (1896ء تا 1967ء) کے بارے میں زیادہ معلومات عام نہیں ہیں۔ ماسکوس کو ایک متنازعہ فنکار تصور کیا جاتا ہے۔ اُن کا ایک فن پارہ 1938ء میں برلن میں ’بگڑے ہوئے آرٹ‘ کی ایک نمائش میں دکھایا گیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ایڈورڈ مُنش کی ’شام، مالیخولیا وَن‘
ناروے کے اظہاریت پسند مصور ایڈرڈ مُنش کے کئی فن پارے گُرلِٹ کے ذخیرے میں سے برآمد ہوئے ہیں۔ یہ وہی مصور ہیں، جن کا مشہور ترین شاہکار ’چیخ‘ 2004ء میں اوسلو کے مُنش میوزیم سے چرا لیا گیا تھا لیکن 2006ء میں مل گیا تھا۔ اُن کے اس گرافک شاہکار پر درج ہے کہ یہ 1896ء میں تخلیق ہوا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
8 تصاویر1 | 8
نمائش میں رکھے گئے سنگ تراشی اور منبت کاری کے نمونوں میں بنیادی رنگ وہی استعمال کیا گیا جو جیل کی دیواروں کا ہوا کرتا تھا۔ ایک سنگ تراش کاتالین بادارُو نے جیل کی راہداریوں کو اپنے نقوش سے سجایا ہے۔ بادارُو نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو اس جیل میں لائے گئے تھے، وہ بہت بہادر اور طاقتور تھے، کیونکہ اُس دور کی حکومت نے اُن کی ہمت اور قوت کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ ناکام رہی اور آخر کار قیدیوں کا حوصلہ جیت گیا۔