دنیا میں سب سے زیادہ منافع بخش کمپنیوں میں سے ایک سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی ارامکوکے منافع میں رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں 73 فیصد کی بھاری گراوٹ آئی ہے۔
اشتہار
کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں مختلف اقتصادی سرگرمیوں پر عائد پابندی کے سبب تیل کی مانگ اور قیمتوں میں بھاری کمی کو منافع میں گراوٹ کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ارمکو گزشتہ ماہ تک دنیا بھر کی منافع بخش کمپنیوں میں سر فہرست تھی تاہم گزشہ ماہ کے اواخر میں امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل اسے مات دے کر پہلے نمبر پر پہنچ گئی۔
سعودی عرب کی معیشت میں اہم رول ادا کرنے والی اور ملک کی شان سمجھی جانے والی کمپنی ارامکو کے منافع میں گراوٹ، تجزیہ کاروں کے حسب توقع ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران ارامکو نے صرف 6.6 ارب ڈالر کا منافع کمایا جبکہ 2019 میں اسی مدت کے دوران کمپنی کو 24.7 بلین ڈالر کا منافع ہوا تھا۔
ارامکو کے چیف ایگزیکیوٹیو امین ناصر نے ایک بیان میں کہا ”تیل کی مانگ اور قیمتوں میں کمی کے زبردست اثرات ہماری دوسری سہ ماہی کے نتائج پر ظاہر ہورہے ہیں۔" انہوں نے تاہم امید ظاہر کی کہ لاک ڈاون میں دی جانے والی چھوٹ کی وجہ سے حالات دھیرے دھیرے بہتر ہوجائیں گے۔
امین ناصر کا کہنا تھا”چین کو دیکھیے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں پٹرول اور ڈیزل کی مانگ کووڈ 19سے پہلے کی طرح ہی ہوگئی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایشیا کی صورت حال بہتر ہورہی ہے۔ جیسے جیسے لاک ڈاون میں نرمی بڑھے گی حالات بہتر ہوں گے۔ ہم 75 بلین ڈالر کے منافع کے اپنے ہدف کے تئیں پرامید ہیں۔"
ارامکو کے رواں مالی سال کے پہلے نصف کے دوران بھی مجموعی منافع میں 50.5 فیصد کی گراوٹ آئی اور یہ 23.2 ارب ڈالر رہ گئی، جبکہ گزشتہ برس اسی مدت کے دوران کمپنی نے 46.9 بلین ڈالر کا منافع کمایا تھا۔
یہ نتائج کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہونے کے سبب خام تیل کی عالمی مانگ میں کمی کی جانب واضح طورپر اشارہ کرتے ہیں۔
تیل فروخت کرنے والی دنیا کی پانچ دیگر بڑی کمپنیوں بی پی، شیورون، ایگزن موبل، رائل ڈچ شیل اور ٹوٹل نے دوسری سہ ماہی میں مجموعی طور پر 53 بلین ڈالر کے نقصان کی بات کہی ہے۔
ناصر کا تاہم کہنا تھا کہ ان نتائج کے برخلاف ارامکو کے نتائج اس کی ”مالیاتی لچک" کا مظہر ہیں کیوں کہ کمپنی اس سال 75 ارب ڈالر کا منافع دینے کے اپنے منصوبے پر گامزن ہے۔
کورونا وائرس سے پید اشدہ حالات کی وجہ سے ارامکو نے نہ صرف اپنے اخراجات میں کمی کی ہے بلکہ اس نے سینکڑوں ملازمتیں بھی ختم کردی ہیں۔ ارامکو نے گزشتہ برس دسمبر میں پہلی مرتبہ اپنے شیئر فروخت کیے تھے۔ اس نے دنیا کے سب سے بڑے آئی پی او کے ذریعہ اپنے 1.7 فیصد شیئر فروخت کرکے 29.4 بلین ڈالر کی رقم حاصل کی تھی۔
ارامکو سعودی عرب کو وزارت توانائی کے ماتحت ہے، جوولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے ہاتھ میں ہے۔ تیل سے ہونے والی آمدنی میں کمی کے نتیجے میں شہزادہ محمد بن سلمان کے معاشی اصلاحات کی کوششوں میں رخنہ پڑ سکتا ہے۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی)
تیل کی قیمتوں میں ڈرامائی کمی کے اثرات
تقریباً روزانہ ہی تیل کی قیمتوں میں کمی کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ ایک برس سے زائد عرصے سے کمزور عالمی معیشت اور تیل کی زیادہ پیداوار کے باعث بے یقینی کی سی صورتحال ہے، جس کی وجہ سے کچھ ممالک بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Hong
خمار اتر رہا ہے
کسی کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ امیر ترین ملکوں میں شمار ہونے والا ناروے بھی تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے متاثر ہو جائے گا۔ بحیرہٴ شمال کی تہہ میں موجود خام تیل نے ناروے کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا تاہم تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اوسلو حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑ رہی ہے۔ اب یہ ملک تیل اور گیس کی فروخت پر بھروسا کرنے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری پر بھی انحصار بڑھائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Hagen
دوہرا نقصان
صرف یورپی یونین کی اقتصادیاں پابندیاں ہی نہیں بلکہ تیل کی کم قیمتیں بھی روس کے غصے میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ 2015ء کے دوران روسی اقتصادی ترقی میں چار فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ تنخواہوں میں کمی اور ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روبل کی قدر میں کمی کی صورت میں نکلا۔ اقتصادیات سے متعلق ایک تنظیم ’بلومبرگ‘ کے مطابق اس سال بھی روس کو کساد بازاری کا سامنا رہے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Druzhinin
مستقبل داؤ پر
نائجیریا افریقہ میں تیل کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔ نئے صدر محمدو بخاری نے انتخابات سے قبل ریاستی اخراجات میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ انتخابی وعدہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی نذر ہو گیا۔ عالمی بینک کے مطابق اس ملک کو ایک تہائی آمدنی تیل کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے بہت سے منصوبے تعّطل کا شکار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نئی حقیقت
صرف نائجیریا ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ممالک اپنے مالیاتی معاملات کا حساب کتاب تیل کی اونچی قیمتوں سے کرتے ہیں۔ تاہم کم قیمتوں کی وجہ سے ان ممالک کے ریاستی بجٹوں میں ایک خلاء سا پیدا ہو گیا ہے۔ 2014ء کے وسط سے تیل کی قیمتیں تقریباً 75 فیصد کم ہو چکی ہیں۔ ماہرین مستقبل قریب میں اس صورتحال کو بہتر ہوتا ہوا بھی نہیں دیکھ رہے۔
پابندیوں کے بعد
برآمدات پر پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد ایران روزانہ تقریباً ڈیڑھ ملین بیرل تیل عالمی منڈی کو مہیا کرے گا۔ اس طرح یہ ملک خود کو بھی نقصان پہنچائے گا کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی مقدار بڑھنے سے اس کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہو گی۔ تاہم تہران حکومت اپنے دشمن سعودی عرب کو ان کم قیمتوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh
اپنے ہی دام میں
سعودی عرب تیل کی پیداوار کم کرنے کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس طرح سعودی عرب تیل نکالنے کے شعبے میں امریکا اور اپنے حریف ملک ایران کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ تاہم اب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا یہ سب سے بڑا ملک اپنے ہی دام میں پھنستا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے سعودی عرب کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر خسارے سے خبردار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Grimm
آخر کب تک؟
قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات کی صورتحال بھی سعودی عرب سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ مالیاتی ادارے جے پی مورگن کے اندازوں کے مطابق چھ خلیجی ریاستوں کے بجٹ کے خسارے کو اگر ایک ساتھ ملایا جائے تو یہ 260 ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: M. Naamani//AFP/Getty Images
انتقال اقتدار سے قبل
دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر لاطینی امریکی ملک وینزویلا کے پاس ہیں۔ ایک طویل عرصے تک ملک کی سوشلسٹ حکومت تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے اپنے سماجی منصوبوں کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتی رہی۔ تاہم اب صدر نکولس مادورو نے اقتصادی شعبے میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے۔ انہیں ملک میں سیاسی میدان میں بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters
کھدائی، کھدائی اور کھدائی اور اب ؟
تیل تلاش کرنے کی جدید ٹیکنالوجی نے امریکا کو تیل کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بنا دیا ہے۔ تاہم ان کم قیمتوں کی وجہ سے انتظامیہ بہت سے آئل ٹرمینلز کو بند کرنے پر بھی مجبور ہو چکی ہے۔ امریکا توانائی کے استعمال کے حوالے سے بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تیل کی انتہائی کم قیمتوں سے گاڑی چلانے والے افراد البتہ آج کل بے حد خوش ہیں۔