سائنس دانوں نے کائنات کی ابتدا کے بعد بننے والے ایک ابتدائی بڑے کائناتی جھرمٹ کو دریافت کر لیا ہے۔ اس ’پروٹو سپر کلسٹر‘ کو یونانی حکایتوں کے تناظر میں ہائپریون کے عرف نام سے بھی پکارا جا رہا ہے۔
اشتہار
ہاپیریون کی کمیت سورج کے مقابلے میں ایک ملین بلین گنا زیادہ ہے جب کہ یہ زمین سے اربوں نوری سال کے فاصلے پر ہے۔
چلی میں ویری لارج ٹیلی اسکوپ (VLT) سے وابستہ یورپی جنوبی رصدگاہ کے سائنس دان اشٹیفان مائفکے کے مطابق، ’’ہائپریون ملکی وے (جس کہکشاں میں ہمارا نظام شمسی واقع ہے) کے مقابلے میں قریب پانچ ہزار گنا کے برابر ہے۔‘‘
یورپی جنوبی رصد گاہ کے چیف آف آپریشنز مائفکے ہی کی ٹیم نے اس عظیم کائناتی جھرمٹ کا سراغ لگایا ہے۔
یہ جھرمٹ کائناتی کی ابتدا یعنی بگ بینگ سے دو ارب سال بعد وجود میں آیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے سائنس دان 13.8 ارب سال قبل ظہور پزیر ہونے والی کائنات کے فقط دو ارب بعد کے منظر میں جھانک رہے ہیں۔
مائفکے کے مطابق، ’’یہ کہکشائیں ہم سے بہت دور ہیں۔ قریب کائنات کے آغاز کے برابر۔ اس سے ہمیں بگ بینگ کے بعد کائنات کے پھیلاؤ اور تب سے اب تک اس کائناتی ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔‘‘
واضح رہے کہ ملکی وے کہکشاں کی عمر قریب 13.6 ارب سال ہے۔
ہائپریون کا سراغ لگانے کے لیے ویزیبل آبجیکٹ سپیکٹروگراف کا استعمال کیا گیا۔ اس دوربینی آلے کو ’ٹائم مشین‘ بھی قرار دیا جاتا ہے، جو چلی کے ایک صحرا کے وسعت میں نصب ہے۔
خلا سے خطرہ
10 ہزار کے قریب سیارچے ہماری زمین کے اطراف میں موجود ہیں۔ رواں برس بہت سے فلکیاتی واقعات پیش آچکے ہیں۔ یورپ ایک ایسا نظام تیار کر رہا ہے جو کسی سیارچے سے زمین کو خطرے کے بارے میں قبل از وقت آگاہ کرے گا۔
تصویر: NASA/ESA/Hubble SM4 ERO Team
یورپ کا خطرے سے قبل از وقت آگاہ کرنے والا نظام
10 ہزار کے قریب سیارچے زمین کے قریب خلاء میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ زمین کے لیے خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ یورپی اسپیس ایجنسی (ESA) ان سیارچوں کے زمین سے ٹکرانے کے خطرات سے قبل از وقت آگاہ کرنے والا نظام تیار کر رہی ہے۔ یہ نظام اٹلی میں فراسکاتی کے قریب نصب کیا جائے گا۔ ٹینریفے میں نصب اس طرح کی دور بینوں کا ڈیٹا اس نظام میں جمع کیا جائے گا۔
تصویر: IQOQI Vienna
زمین کے قریب سے گزرتے سیارچے
اگر آپ قبل از وقت آگاہی کے نظام کی اہمیت جانناچاہیے ہیں، تو پھر رواں برس 15 فروری کو روسی علاقے چلیابِنسک میں گرنے والے شہابی پتھر کا تصور کیجیے۔ اس سے پیدا ہونے والا دھماکہ 100 سے 1000 کلوٹن ٹی این ٹی کے دھماکے جتنا طاقتور تھا۔ اس سے قریب 1500 افراد زخمی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpah
برفانی جھیل میں سوراخ
زمینی فضا میں داخلے کے وقت اس پتھر کے قطر کا اندازہ 20 میٹر لگایا گیا ہے۔ مگر ہوا کی رگڑ کے باعث جل کے تباہ ہونے کے بعد اس پتھر کا وزن محض ایک کلوگرام کے قریب رہ گیا تھا۔ اس کے باوجود جب یہ زمین پر گرا تو برف میں چھ میٹر قطر کا سوراخ پیدا ہوا۔
تصویر: Reuters
زیادہ بڑا اور زیادہ خطرناک
لیکن "2012 DA14" نامی سیارچہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک تھا۔ اس کا وزن 130,000 ٹن تھا۔ اسی دن جب شہابی پتھر چلیابِنسک میں ٹکرایا، 2012 DA14زمین سے محض 27 ہزار کلومیٹر کی دوری سے گزرا۔ یہ بعض مصنوعی سیاروں کے زمین سے فاصلے سے بھی کم ہے۔
تصویر: NASA/Science dpa
مزید سیارچوں کا زمین کے قریب گزرنے کا امکان
رواں برس کئی دیگر سیارچوں کے بھی زمین کے قریب گزرنے کا امکان ہے۔ سائنسدان ایسے سیارچوں اور شہابیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ ان میں سے کوئی چھوٹی چٹان بھی کافی خطرناک ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دُمدار ستارے اور ٹوٹتے ستارے
دُمدار ستارے گیس کے بادلوں اور گیس، پتھروں اور دیگر ذرات پر مشتمل لمبی دم پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی چھوٹا سا پتھر بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتا ہے تو اس کا درجہ حرارت 3000 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ جلنے کے باعث چمکنے اور ٹوٹے ستارے کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
اگر شہابی پتھر جل کر تباہ نہ ہوں
شہابی پتھر اکثر ہماری فضا میں داخل ہونے کے بعد ہوا کی رگڑ کے باعث جل کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے جو زمین کی سطح تک پہنچنے سے قبل مکمل طور پر تباہ نہیں بھی ہوتے ان کا سائز ایک چھوٹے پتھر سے زیادہ نہیں ہوتا۔ تاہم بڑے شہابیے کافی نقصان کر سکتے ہیں۔ اب تک شہابی پتھر کے باعث زمین پر پڑنے والا سب سے بڑا گڑھا ایریزونا میں ہے۔ اس کا قطر 1000 میٹر ہے اور یہ 50 ہزار سال پرانا ہے۔
تصویر: cc-by/LarryBloom
ایک دور کا خاتمہ
اب سے اندازاﹰ 65 ملین برس قبل ایک بڑا سیارچہ جزیرہ نما یُکاتان Yucatan میں گِرا تھا۔ اس کی منظر کشی اس خیالی تصویر میں کی گئی ہے۔ اس کے باعث Chicxulub نامی گڑھا پیدا ہوا جس کا قطر 180 کلومیٹر سے زائد تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ واقعہ زمین سے ڈائنوسارس کی نسل کے خاتمے کا سبب بنا۔
تصویر: picture alliance/dpa
جلی ہوئی چٹانیں
سیارچے دراصل جلی ہوئی چٹانوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر سیاروں پر بھی ایسے سیارچے ٹکراتے رہتے ہیں۔ ناسا کی طرف سے مریخ پر بھیجی گئی روبوٹ گاڑی اپورچونٹی نے مریخ پر 2005ء میں مریخ کی سطح پرکسی بیرونی خلائی جسم کے ٹکرانے کے سبب پیدا ہونے والا گڑھا دریافت کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb
مگر اس سب کے باوجود
زمین کے باسیوں کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ فلکیاتی ماہرین کے مطابق بڑے سیارچوں یا شہابیوں کے اگلے 100 برس کے دوران زمین سے ٹکرانے کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔
تصویر: AP
10 تصاویر1 | 10
چلی میں سیکٹروگراف ’ویری لارج ٹیلی اسکوپ‘ یا ’انتہائی بڑی دوربین‘ میں نصب ہے۔ جب کہ یہ تازہ دریافت اولگا کوکیاٹی آف نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایسٹروفزکس، اٹلی کی محققین نے کی ہے۔ یہ دوربین چلی کی دارالحکومت سین تیاگو سے 760 میل دور شمال میں نصب ہے۔
اس رپورٹ کے معاون مصنف اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہر فلکیات برائن لیموکس کے مطابق، کہکشاؤں پر وقت کے ساتھ ساتھ اربوں برس تک تجاذبی قوت کے اثر کی وجہ سے ان کی کثافت میں اضافہ ہوا۔