1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اربوں ڈالر کی اسلحہ تجارت کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش

27 جولائی 2012

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان مون نے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ قریب 70 ارب ڈالر سالانہ مالیت کی روایتی ہتھیاروں کی تجارت کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق معاہدے کو ممکن بنانے کے لیے لچک کا مظاہرہ کیا جائے۔

تصویر: DW

نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں اس موضوع پر تین ہفتوں تک ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی جو آج اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ اس کانفرنس کے اختتام پر ایک جامع اور قانونی طور پر پابند کرنے والا معاہدہ طے پاجانا چاہیے، جس سے مسلح تنازعات کے شکار لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر حقیقی اثرات مرتب ہوں۔ بان کی مون کے بقول اس ضمن میں 193 رکن ریاستوں کے مابین کئی مہینوں کی بات چیت کے بعد بھی بہت کم پیشرفت ممکن ہوئی ہے۔

کئی مسلح تنازعات میں چھوٹے ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال بڑے پیمانے پر انسانی کا سبب بن رہا ہےتصویر: dpa

عالمی طور پر اسلحہ بنانے والے بڑے ممالک اپنے اپنے خدشات کو لے کر حتمی معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ابتدا ہی سے امریکا بارود کو ریگولیٹری قانون میں شامل کرنے کی مخالفت کر رہا ہے، چین نہیں چاہتا کہ چھوٹے ہتھیار اس میں شامل کیے جائیں جبکہ روس اور چین دونوں مجوزہ ریگولیٹری قانون میں شامل انسانی حقوق سے متعلق متعدد شقوں پر تحفظات رکھتے ہیں۔ بان کی مون نے رکن ریاستوں سے مطالبہ کیا کہ وہ نیک نیتی اور لچکداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے اختلافات دور کریں۔

سفارتی ذرائع کے مطابق شام، شمالی کوریا، ایران، کیوبا اور الجزائر بھی اس معاہدے کے حق میں نہیں۔ اس کانفرنس میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ٹریٹی کے اطلاق کے لیے کتنے ممالک کی توثیق ناگزیر ہوگی۔ کانفرنس کے موقع پر بان کی مون کا بیان پڑھتے ہوئے ان کی ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پر امید ہیں کانفرنس میں اسلحہ کی تجارت سے متعلق جامع ٹریٹی تشکیل دے دی جائے گی۔ بان کی مون کے بقول تمام رکن ممالک پر ان سب معصوم افراد کے حوالے سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو مسلح تنازعوں کا شکار بن جاتے ہیں۔

(sks/ ng (AFP

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں