ارتھ ڈے منانے والے سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ زمین کو پلاسٹک کی آلودگی سے محفوظ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو پلاسٹک آلودگی کو کم کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیے ہوئے ہے۔ اس عمل میں فنکاروں سے لے کر پالیسی ساز شامل ہیں۔
اشتہار
زمین پر اس وقت جا بجا پلاسٹک بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ پلاسٹک زمین سے حاصل ہونے والے فوسل فیول سے تیار کیا جاتا ہے۔ زمین سے نکلنے والی توانائی سے حاصل کیا جانے والا پلاسٹک استعمال کے بعد زمین پر پھینک دیا جاتا ہے اور بعد میں کھیتوں کھلیانوں میں اس کے ڈھیر بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ پلاسٹک سمندروں کی آلودگی کے ساتھ ساتھ زمین سے اگنے والی خوراک کو بھی زہریلا بناتا ہے۔
بائیس اپریل ہر سال ارتھ ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ سن 1970 سے شروع ہے۔ اس دن کے حوالے سے زمین کے تحفظ کے کارکن اِس عزم کا اعادہ کرتے ہیں جو اس سیارے کے تحفظ سے منسلک ہے۔ رواں برس زمین کو پلاسٹک کی آلودگی سے پاک کرنے کے عزم کا دن ہے۔
استعمال کے بعد زمین پر پھینک دینا والا پلاسٹک مکمل طور پر تلف نہیں ہوتا بلکہ کہیں نہ کہیں وہ موجود رہتا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 300 ملین ٹن پلاسٹک سالانہ بنیاد پر استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ اس میں سے اوسطاً آٹھ ملین ٹن پلاسٹک سمندر میں داخل ہو رہا ہے۔ سمندر میں اس پلاسٹک کی مقدار مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
ارتھ ڈے نیٹ ورک کا بائیس اپریل کو فوکس ہے کہ ہر ممکن طریقے سے پلاسٹک کے استعمال میں کمی لائی جائے تاکہ اس گلوبل مسئلے میں کمی کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر بسنے والا ہر انسان اپنے روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والے پلاسٹک میں کمی لانا شروع کرے۔ اسی طرح پالیسی سازوں سے بھی مطالبے میں شدت لائی جائے کہ وہ پلاسٹک کا استعمال زیادہ کرنے والی کمپنیوں کو کنٹرول میں کرنے کے ضوابط بنائیں۔
رواں ہفتے کے دوران برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ پلاسٹک اسٹرا، مشروبات کو مکس کرنے والے پلاسٹک کے چمچہ نما اشیاء، کاٹن بڈز پر مکمل پابندی عائد کر رہی ہے۔ لندن حکومت نے ایسی منصوبہ بندی بھی کر رکھی ہے کہ ایسے پلاسٹک پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی جو ری سائیکلنگ میں صرف ایک دفعہ استعمال ہوتا ہے۔
اسی طرح یورپی یونین نے بھی سن 2030 تک ایسے پلاسٹک کو مارکیٹ کرنا ہے جو بار بار ری سائیکل کے عمل سے گزارا جا سکے۔ ارتھ ڈے کے سرگرم کارکن پلاسٹک کے استعمال پر پابندی کے حوالے سے پیرس ڈیل کی طرح کے ایک معاہدے کی تمنا رکھتے ہیں۔
انجانے طور پر کس طرح پلاسٹک ہمارے جسم میں جا رہا ہے
پلاسٹک کے باریک ذرات یا مائیکرو پلاسٹک نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی ضرر رساں ہے۔ اس کے باوجود ایسے ذرات روز مرہ کی زیر استعمال مصنوعات میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسی ہی چند اشیا پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
ٹوتھ پیسٹ
مائیکرو پلاسٹک حجم میں 5 ملی میٹر سے بھی کم ہوتے ہیں۔ لیکن سمندر میں جمع ہو کر یہ نہ صرف سمندری حیات کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ہوا میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹوتھ پیسٹ میں بھی انکی موجودگی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ کس طرح ہماری زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
فیس واش
کاسمیٹک مصنوعات کی پیکنگ سے لے کر ان میں شامل اجزا تک میں پلاسٹک موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق روزانہ چہرہ دھونے کے لیے استعمال ہونے والے بعض فیس واش میں بھی مائیکرو پلاسٹک استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/Y. Mok
سمندری حیات
سن 2017 میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق انڈونیشیا اور کیلیفورنیا کی مارکیٹوں میں دستیاب مچھلیوں کے ٹیسٹ سے سامنے آیا کہ 25 فیصد مچھلیوں کے پیٹ میں پلاسٹک اور پلاسٹک کے مصنوعی ذرات موجود تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Anka Agency International
سمندری نمک
سن 2017 میں شائع ہونے والے کئی مطالعات کے مطابق امریکا، یورپ اور چین کے سمندری نمک میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا۔ اس تناظر میں یہ بات حیران کن نہیں کہ سمندر میں پایا جانے والا 60 سے 80 فیصد کباڑ پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Bildagentur-online/Tetra
شہد
عموماﹰ اس پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ مچھلی، جھینگے اور چند دیگر سمندری حیات میں مائیکرو پلاسٹک پائے جاتے ہیں لیکن چند سائنسدانوں کے مطابق شہد بھی اب پلاسٹک سے محفوظ نہیں۔ حالیہ یورپی پلاسٹک اسٹریٹیجی میں شہد بھی ان مصنوعات کی فہرست میں شامل ہے جس میں مائیکرو پلاسٹک پائی گئی ہے جس کے باعث مائیکرو پلاسٹک پر پابندی لگانے کی سفارشات میں تیزی آئی ہے۔
تصویر: Colourbox
کمبل
مصنوعی ریشے دار کپڑوں کی دھلائی کے وقت بڑے پیمانے پر پلاسٹک کے انتہائی باریک ریشے اس گندے پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جو سمندر میں گرتا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق 5 سے 8 ملی میٹر لمبائی کے 7 لاکھ سے زائد ریشے صرف کمبلوں کی دھلائی میں ہی خارج ہو کرپانی میں شامل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Imago/Mint Images
نلکے کا پانی
سائنسدانوں نے مختلف ممالک میں نلکے کے پانیوں کا معائنہ کیا تو سامنے آیا کہ 80 فیصد نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے۔ امریکا کے 94 اور جرمنی اور برطانیہ میں 70 فیصد نمونے پلاسٹک کے ذرات سے آلودہ پائے گئے۔