اردن کی حکومت کا کہنا ہے کہ زرقا شہر کے پاس فوجی ساز و سامان ذخیرہ کرنے والے ایک مرکز کے پاس شارٹ سرکٹ کی وجہ سے سلسلہ وار دھماکے ہوئے ہیں۔ اس مرکز میں مورٹارز جیسی اشیا رکھی ہوئي تھیں۔
اشتہار
اردون کے دارالحکومت عمان سے کچھ ہی فاصلے پر واقع زرقا شہر کے پاس جمعے کی علی الصبح سلسلہ وار دھماکوں کی اطلاعات ہیں۔ اردن کے وزیر اطلاعات و نشریات امجد عدیلیہ نے سرکاری میڈیا سے بات چیت میں کہا ہے کہ ابتدائی تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دھماکہ ایک فوجی عمارت میں برقی شارٹ سرکٹ کے باعث ہوا، جس میں مارٹر کے گولے سمیت دھماکہ خیز فوجی ساز و سامان رکھا ہوا تھا۔
شہر کے بعض رہائشیوں نے اس سے متعلق جو تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں اس میں دھماکے کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کی تصاویر میں دھماکوں کی شدت سے مکانات کی کھڑکیاں اور ان کے ٹوٹے ہوئے شیشے بالکل عیاں ہیں۔
سرکاری میڈیا نے اس حوالے سے جو بیان جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ''فوجی جنرل کمانڈ کے مطابق اس وقت تک تو اس دھماکے سے کسی کی جان جانے کی خبر نہیں ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں اس کا پتہ کرنے کے لیے ایک کمٹیی تشکیل دے دی گئی ہے جو اپنا کام کر رہی ہے۔
جنہيں قسمت نے ہمسايہ بنا ديا: ايک مسلمان، ايک يہودی
02:33
اردن کی حکومت نے جو بیان جاری کیا ہے اس کے مطابق فوجی ساز و سامان کے اس مرکز میں جو مارٹر زاور باردو رکھے ہوئے تھے وہ استعمال کے لائق نہیں تھے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوجی سامان ذخیرہ کرنے والا یہ مرکز آبادی سے کافی فاصلے پر واقع ہے اور اس کی ویڈیو کیمرہ کے ذریعے باقاعدہ نگرانی کی جا رہی تھی۔
زرقا شہر دارالحکومت عمان سے تقریباً 25 کلیومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اطلاعات کے مطابق شہر میں فوجی ساز و سامان ذخیرہ کرنے کے متعدد مراکز قائم ہیں۔ اس شہر میں ماضی میں بھی کئی بار دھماکے ہوچکے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کافی پرانی باردو اور دھماکہ خیز مواد سے کئی بار ایک مدت سے رکھے ہوئے ہتھیاروں میں آگ لگ جاتی ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)
السلط، اردن میں مذہبی ہم آہنگی کی جنت
دنیا بھر میں مسیحیوں اور مسلم دنیا کے درمیان کشیدگی اپنی جگہ مگر اردن کا السلط شہر بین المذاہب ہم آہنگی کا ایک خوب صورت گہوارہ ہے، جسے اٹلی سے تعلق رکھنے والی فوٹوگرافر فاطمہ عابدی نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
قدیم شہر
فوٹوگرافر فاطمہ عابدی ابوظہبی میں پیدا ہوئیں، مگر انہوں نے پڑھائی کی غرض سے دس برس اردن کے علاقے السلط میں گزارے۔ اس شہر کی بیناد تین سو قبلِ مسیح میں رکھی گئی تھی اور اب وہاں قریب نوے ہزار افراد مقیم ہیں۔ اس شہر میں بیک وقت عرب اور یورپی ثقافت پوری ہم آہنگی کے ساتھ ملتی ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
دیوار نہیں، تقسیم نہیں
السلط شہر کو عالمی ادارہ برائے ثقافت یونیسکو کی عالمی ورثے کے فہرست کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے۔ اس شہر میں مسلم اکثریت اور مسیحی آبادی بغیر کسی تقسیم کے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ اسی طرح مشرقی اور مغربی ثقافتیں بھی اس شہر میں ایک دوسرے سے ملتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
سینٹ جارج سے الخضر تک
السلط کے مسیحیوں نے شہر کی ثقافتی، معاشی اور سیاسی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ السلط میں ان دونوں مذاہب کی تاریخ زبردست رنگ سے ملتی ہے۔ یہاں شہر میں سینٹ جارج نامی چرچ کے اطراف میں آرائشی پتھروں پر قرآن کی آیات بھی لکھی نظر آتی ہیں اور بائبل کے مناظر بھی۔
تصویر: Fatima Abbadi
سب کی جگہ
یہ مقدس عمارت ایک چرواہے کے اس خواب کے بعد سن 1682ء میں تعمیر کی گئی تھی، جس میں اس نے دیکھا تھا کہ سینٹ جارج نے اس کے مویشیوں کو ایک بلا سے محفوظ رہنے کے لیے چرچ تعمیر کرنے کی تاکید کی تھی۔ تب سے اب تک مسیحی اور بہت سے مسلمان اس چرچ میں آتے ہیں اور سینٹ کے حوالے سے یہاں دیپ جلاتے ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
دو ہزار سال پرانی تاریخ
اردن اور مسیحیت کے درمیان تعلق قدیم ہے۔ دریائے اردن ہی کے کنارے یسوع نے بپتسمہ دیا تھا۔ بہت سے مسیحی خاندان پہلی سنِ عیسوی سے یہاں آباد ہیں اور عوامی طور پر عبادت کرتے ملتے ہیں۔ اردن میں مسیحی پارلیمان کا حصہ ہیں اور حکومتی انتظام میں بھی پیش پیش ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
مظاہرے اور دعوے
شاہ عبداللہ ثانی کی جانب سے سینکڑوں برس کے پرامن ساتھ کے حوالے دیے جانے اور یہ تک کہنے کہ عرب مسیحی اس خطے کے ماضی حال اور مستقبل کا کلیدی حصہ ہیں، تاہم حالیہ کچھ برسوں میں اردن میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان کشیدگی کچھ زیادہ ہوئی ہے۔ اسی تناظر میں اردن میں مظاہرے بھی دیکھے گئے۔ تاہم السلط شہر میں اس کشیدگی کا کوئی اثر نہیں ملتا۔
تصویر: Fatima Abbadi
ایک زبردست اجتماع
کرسمس کے موقع پر مسلمان سب سے پہلے اپنے دروازے مسیحیوں کے ساتھ اس تہوار کو منانے کے لیے کھولتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کے تہوار کے موقع پر مسیحی مہمان نوازی میں آگے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ انتخاب میں ایک مسیحی خاتون نے شہری کونسل کی اہم نشست پر کامیابی حاصل کی۔ السلط کی مجموعی آبادی کا 35 فیصد مسیحیوں پر مبنی ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
امن کا نسخہ، احترام
عابدی کی السلط کی ان تصاویر میں روایتی زرعی زندگی سے شہر میں آج کی مغربی اقدار سب دکھائی دیتی ہیں۔ عابدی کو یقین ہے کہ دنیا میں کوئی بھی واقعہ اس شہر میں لوگوں کے باہمی رشتوں کو اثرانداز نہیں کر سکتا، کیوں کہ یہاں لوگوں کے درمیان باہمی تعلق کی تاریخ نہایت قدیم ہے اور وجہ یہ ہے کہ سبھی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور رہتے یوں ہیں، جیسا یہ کوئی شہر نہیں بلکہ ایک بڑا سا گھرانہ ہو۔