اردن میں شاہی محل کا کہنا ہے کہ شہزادہ حمزہ نے اپنے ایک خط میں شاہ عبداللہ سے وفاداری کا عہد کر لیا ہے۔ حمزہ پر ''ملکی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے'' کے ایک منصوبے کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
اشتہار
اردن کی شاہی عدالت نے پانچ اپریل پیر کے روز بتایا کہ شہزادہ حمزہ نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں انہوں نے شاہ سے ہمیشہ کے لیے وفاداری کا عہد کیا ہے۔ چند روز قبل ہی شہزادہ حمزہ پر اردن کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں ان کے بعض ساتھیوں سمیت حراست میں لے لیا گیا تھا۔
شاہی عدلیہ کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق خط میں لکھا ہے، ''میں اپنے آپ کو بادشاہ سلامت کی پناہ میں رکھتا ہوں...میں اردن کی ہاشمی سلطنت اور بادشاہت کے آئین کے تئیں ہمیشہ عہد پر قائم رہوں گا اور باد شاہ اور ولی عہد شہزادہ کی ہمیشہ مدد اور حمایت کروں گا۔''
اس خط میں مزید کہا گیا ہے، ''تمام دیگر چیزوں کے مقابلے میں وطن کے مفادات ہر لحاظ سے بالاتر ہیں۔ اردن اور اس کے قومی مفادات کے تحفظ کی کوششوں میں ہم سبھی کو بادشاہ کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔''
شہزادہ حمزہ کے ایک وکیل نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس سلسلے میں ثالثی کی کوششیں کامیاب رہی ہیں۔
ثالثی کی کوششیں
شاہی عدالت کا کہنا ہے کہ اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حمزہ نے پیر کے روز شہزادہ حسن، شاہ عبداللہ کے چچا، اور دیگر شاہی خاندان کے افراد سے ملاقات کے بعد اس عہد نامے پر دستخط کیے ہیں۔
اس سے قبل پیر کے روز ہی اردن کے شاہی محل نے اعلان کیا تھا کہ شاہ عبداللہ ثانی اپنے اہل خانہ سے اپنے سوتیلے بھائی حمزہ سے ملاقات کر کے اس معاملے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کو کہیں گے۔ شہزادہ حمزہ پر شاہ کے خلاف 'گندی' سازش کرنے الزام عائد کیا گیا تھا۔
شاہی محل کے ایک بیان کے مطابق شاہ عبداللہ نے، ''شہزادہ حمزہ کے سوال کو ہاشمی خاندان کے دائرہ کار میں رکھنے کا فیصلہ کیا اور اسے (اپنے چچا) شہزادہ حسین کے سپرد کر دیا تھا۔''
شہزادہ حمزہ کے ایک وکیل نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ثالثی کامیاب ہو گئی ہے اور ایک بے مثال جھگڑے کے حل کی جلد ہی توقع کی جا رہی ہے۔
نا فرمانی کے خطرات
اس سے قبل شہزادہ حمزہ نے گھر میں نظر بندی کے دوران ان تمام احکامات و ہدایات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جو ان پر پابندی کے طور پر عائد کی گئی تھیں۔ 41 سالہ شہزادہ کا کہنا تھا کہ اردن کی سکیورٹی فورسز نے انہیں دھمکیاں دی ہیں تاہم وہ نا قابل قبول احکامات پر قطعی عمل نہیں کریں گے۔
پیر کے روز جاری ہونے والی ایک تازہ ریکارڈ شدہ آواز میں انہوں نے کہا کہ عوام سے رابطوں کے ان کے تمام ذرائع کو منقطع کر دیا گیا ہے۔
اردن کے شاہ حسین کا عشق اور سی آئی اے کا جال
اردن کے شاہ حسین کے دورہٴ امریکا کو پرلطف بنانے کے لیے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے خصوصی منصوبہ بندی کی۔ اس مقصد کے لیے شاہ حسین کی اِس دورے کے دوران ہالی ووڈ اداکارہ سوزن کابوٹ کے ساتھ ملاقات کرائی گئی۔
تصویر: Getty Images/Keystone
کینیڈی فائلز اور سوزن کابوٹ
حال ہی میں امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کی پینتیس ہزار خفیہ فائلیں عام کی گئیں۔ انہیں ’کینیڈی فائلز‘ بھی کہا گیا ہے۔ ان میں خاص طور پر اداکارہ سوزن کابوٹ اور اردن کے شاہ حسین کے درمیان روابط سامنے آئے ہیں۔ سوزن کابوٹ امریکی فلمی صنعت کی دوسرے درجے کی اداکارہ تصور کی جاتی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone
شاہ حسین بن طلال
اردن کے موجودہ فرمانروا شاہ عبداللہ کے والد حسین، طلال بن عبداللہ کے بیٹے تھے۔ اُن کے خاندانی دعوے کے مطابق شاہ حسین ہاشمی نسبت رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام کی چالیسیویں پشت سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ انگینڈ کی فوجی اکیڈمی کے فارغ التحصیل تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مسجدٍ اقصیٰ میں قاتلانہ حملہ
بیس جولائی سن 1951 کو حسین اور اُن کے والد شاہ عبداللہ مسجد الاقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے، جب اُن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں اُس وقت کے اردنی بادشاہ عبداللہ قتل ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/United Archiv/WHA
نئے اردنی بادشاہ کی ذہنی بیماری اور نا اہلی
شاہ عبداللہ کے قتل کے بعد اردن کی حکمرانی اُن کے بیٹے طلال کو ضرور سونپی گئی لیکن صرف ایک سال بعد ہی ایک ذہنی بیماری شیزوفرینیا کی تشخیص کی وجہ سے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حکومت سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ATP Bilderdienst
اردن کا ٹین ایجر بادشاہ
شاہ طلال کی نا اہلی کے بعد سولہ سالہ حسین کو اردن کا نیا بادشاہ بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی۔ اردن اسی دور میں برطانیہ سے آزادی کی کوششوں میں تھا اور اِن حالات میں شاہ حسین نے مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادی بننے کا انتخاب کیا۔ امریکا بھی مشرق وسطیٰ میں اتحادیوں کی تلاش میں تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
شاہ حسین کا پہلا دورہ امریکا
سن 1959 میں شاہ حسین امریکی دورے پر واشنگٹن پہنچے اور صدر آئزن آور سے ملاقات کی۔ امریکی خفیہ ادارے نے اس دورے کو ’محبت کا یادگار سفر‘ بنانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ سی آئی اے کی جانب سے ’ محبت کا جال‘ بچھانے کی یہ چال برسوں عام نہیں ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
محبت کا جال
مختلف رپورٹوں کے مطابق شاہ حسین خوبصورت عورتوں کے دلدادہ تھے۔ امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ رابر ماہیو اردنی اشرافیہ کے ساتھ گہرے روابط رکھتے تھے اور اُن کی اطلاعات کی روشنی میں امریکی شہر لاس اینجلس میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
لاس اینجلس کی پارٹی
امریکی شہر لاس اینجلس کی پارٹی میں شاہ حسین کی پہلی ملاقات سوزن کابوٹ سے ہوئی۔ شاہ حسین اپنی پہلی بیوی شریفہ سے دو برس کی شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔ لاس اینجلس کی پارٹی میں حسین نے سوزن کابوٹ کو نیویارک میں ملاقات کی دعوت دی۔
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے شاہ حسین اور سوزن کابوٹ کے تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ امریکی اداکارہ سے ملاقات کے لیے شاہ حسین خصوصی محافظوں کی نگرانی میں جاتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
ملکہ مونا سے شادی اور سوزن کابوٹ
امریکی خفیہ ادارے نے سوزن کابوٹ پر دباؤ بڑھایا کہ وہ شاہ حسین سے جسمانی تعلقات استوار کرے اور دوسری جانب اردنی بادشاہ اس تعلق کی میڈیا پر آنے سے بھی محتاط تھے۔ اٹھارہ اپریل سن 1959 کو شاہ حسین اکیلے ہی واپس اردن روانہ ہو گئے اور پھر سن 1961 میں انہوں نے ایک برطانوی خاتون سے شادی کی جو بعد میں ’ملکہ مونا‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سوزن کابوٹ کے ساتھ رابطہ
خفیہ دستاویزات کے مطابق شاہ حسین کئی برس تک سوزن کابوٹ کو خط تحریر کرتے رہے۔ دوسری جانب ملکہ مونا سے اُن کے چار بچے پیدا ہوئے اور یہ شادی سن 1972 میں ختم ہوئی۔ موجودہ شاہ عبداللہ بھی ملکہ مونا ہی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Larsen
سوزن کابوٹ سے تعلق ختم ہو گیا
امریکی اداکارہ سوزن کابوٹ کے ساتھ شاہ حسین نے اپنا تعلق اُس وقت ختم کر دیا جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ یہودی النسل ہے۔ دوسری جانب شاہ حسین کی تیسری بیوی علیا الحسین سن1977 میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہو گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Keystone Press
شاہ حسین کی چوتھی شادی
سن 1978 میں اردنی بادشاہ نے ایلزبیتھ نجیب الحلبی سے شادی کی اور وہ ملکہ نور کے نام سے مشہور ہوئیں۔ اس بیوی سے بھی چار بچے پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ossinger
سوزن کابوٹ کے لیے اردنی وظیفہ
سورن کابوٹ کے قاتل بیٹے کے ایک وکیل کے مطابق اردنی دربار سے کابوٹ کو ماہانہ 1500 ڈالر کا وظیفہ دیا جاتا تھا۔ سوزن کابوٹ کا ایک بیٹا بھی تھا اور اُسی نے اس خاتون اداکارہ کو سن 1986 میں دماغی خلل کی وجہ سے قتل کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
شاہ حسین کا انتقال
شاہ حسین سات فروری سن 1999 کو سرطان کی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ وہ سینتالیس برس تک اردن کے حکمران رہے۔ اُن کے دور میں عرب اسرائیل جنگ میں انہیں شکست کا سامنا رہا۔ وہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے دستخطی بھی تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/AFP/R. Moghrabi
15 تصاویر1 | 15
اردن کی حکومت نے شہزادہ حمزہ پر شاہی سلطنت کو غیر مستحکم کرنے کے ایک منصوبے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں عمان میں ان کے محل میں قید کر دیا تھا۔ لیکن اس کے جواب میں حمزہ نے کہا تھا، ''میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتا جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو، لیکن میں قطعی طور پر ایسے احکامات پر عمل نہیں کروں گا جس میں مجھ سے کہا جائے کہ آپ باہر نہیں جا سکتے، آپ ٹویٹ نہیں کر سکتے، آپ لوگوں سے بات نہیں کر سکتے اور آپ کو صرف اپنے خاندان کو دیکھنے کی اجازت ہے۔''
اتوار کے روز وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا تھا کہ شہزدہ حمزہ نے اپنی بات چیت ریکارڈ کر کے بیرونی ذرائع کے حوالے کی تھی کیونکہ وہ غیروں سے حمایت چاہتے تھے۔
اشتہار
امریکا نے عبداللہ کی حمایت کی
اس پورے تنازعے میں امریکا اور عرب حکمرانوں نے فوری طور پر اردن کے شاہ عبداللہ ثانی کی حمایت میں آواز بلند کی۔ لیکن گھریلو سطح پر شہزادہ حمزہ نے اردن میں خراب حکمرانی، انسانی حقوق کی ابتر صورت حال اور دیگر معاملات کے حوالے سے جس طرح شاہ عبداللہ کا نام لیے بغیر حکمراں خاندان پر نکتہ چینی کی ہے اس سے ان کی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
سابق ولی عہد حمزہ بن حسین مرحوم بادشاہ حسین اور ان کی امریکی اہلیہ ملکہ نور کے بیٹے ہیں۔ سرکاری سطح پر ان کے اپنے سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ کے ساتھ اچھے روابط ہیں اور وہ قبائلی رہنماؤں میں کافی شہرت رکھتے ہیں۔ شاہ عبداللہ کی جانب سے حمزہ کو قریب المرگ شاہ حسین کی خواہش پر 1999ء میں ملک کا ولی عہد بنایا گیا تھا لیکن 2004ء میں حمزہ سے یہ عہدہ واپس لے لیا گیا اور شاہ عبداللہ نے اپنے بیٹے حسین کو ملک کا ولی عہد بنا دیا تھا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)
السلط، اردن میں مذہبی ہم آہنگی کی جنت
دنیا بھر میں مسیحیوں اور مسلم دنیا کے درمیان کشیدگی اپنی جگہ مگر اردن کا السلط شہر بین المذاہب ہم آہنگی کا ایک خوب صورت گہوارہ ہے، جسے اٹلی سے تعلق رکھنے والی فوٹوگرافر فاطمہ عابدی نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
قدیم شہر
فوٹوگرافر فاطمہ عابدی ابوظہبی میں پیدا ہوئیں، مگر انہوں نے پڑھائی کی غرض سے دس برس اردن کے علاقے السلط میں گزارے۔ اس شہر کی بیناد تین سو قبلِ مسیح میں رکھی گئی تھی اور اب وہاں قریب نوے ہزار افراد مقیم ہیں۔ اس شہر میں بیک وقت عرب اور یورپی ثقافت پوری ہم آہنگی کے ساتھ ملتی ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
دیوار نہیں، تقسیم نہیں
السلط شہر کو عالمی ادارہ برائے ثقافت یونیسکو کی عالمی ورثے کے فہرست کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے۔ اس شہر میں مسلم اکثریت اور مسیحی آبادی بغیر کسی تقسیم کے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ اسی طرح مشرقی اور مغربی ثقافتیں بھی اس شہر میں ایک دوسرے سے ملتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
سینٹ جارج سے الخضر تک
السلط کے مسیحیوں نے شہر کی ثقافتی، معاشی اور سیاسی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ السلط میں ان دونوں مذاہب کی تاریخ زبردست رنگ سے ملتی ہے۔ یہاں شہر میں سینٹ جارج نامی چرچ کے اطراف میں آرائشی پتھروں پر قرآن کی آیات بھی لکھی نظر آتی ہیں اور بائبل کے مناظر بھی۔
تصویر: Fatima Abbadi
سب کی جگہ
یہ مقدس عمارت ایک چرواہے کے اس خواب کے بعد سن 1682ء میں تعمیر کی گئی تھی، جس میں اس نے دیکھا تھا کہ سینٹ جارج نے اس کے مویشیوں کو ایک بلا سے محفوظ رہنے کے لیے چرچ تعمیر کرنے کی تاکید کی تھی۔ تب سے اب تک مسیحی اور بہت سے مسلمان اس چرچ میں آتے ہیں اور سینٹ کے حوالے سے یہاں دیپ جلاتے ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
دو ہزار سال پرانی تاریخ
اردن اور مسیحیت کے درمیان تعلق قدیم ہے۔ دریائے اردن ہی کے کنارے یسوع نے بپتسمہ دیا تھا۔ بہت سے مسیحی خاندان پہلی سنِ عیسوی سے یہاں آباد ہیں اور عوامی طور پر عبادت کرتے ملتے ہیں۔ اردن میں مسیحی پارلیمان کا حصہ ہیں اور حکومتی انتظام میں بھی پیش پیش ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
مظاہرے اور دعوے
شاہ عبداللہ ثانی کی جانب سے سینکڑوں برس کے پرامن ساتھ کے حوالے دیے جانے اور یہ تک کہنے کہ عرب مسیحی اس خطے کے ماضی حال اور مستقبل کا کلیدی حصہ ہیں، تاہم حالیہ کچھ برسوں میں اردن میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان کشیدگی کچھ زیادہ ہوئی ہے۔ اسی تناظر میں اردن میں مظاہرے بھی دیکھے گئے۔ تاہم السلط شہر میں اس کشیدگی کا کوئی اثر نہیں ملتا۔
تصویر: Fatima Abbadi
ایک زبردست اجتماع
کرسمس کے موقع پر مسلمان سب سے پہلے اپنے دروازے مسیحیوں کے ساتھ اس تہوار کو منانے کے لیے کھولتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کے تہوار کے موقع پر مسیحی مہمان نوازی میں آگے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ انتخاب میں ایک مسیحی خاتون نے شہری کونسل کی اہم نشست پر کامیابی حاصل کی۔ السلط کی مجموعی آبادی کا 35 فیصد مسیحیوں پر مبنی ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
امن کا نسخہ، احترام
عابدی کی السلط کی ان تصاویر میں روایتی زرعی زندگی سے شہر میں آج کی مغربی اقدار سب دکھائی دیتی ہیں۔ عابدی کو یقین ہے کہ دنیا میں کوئی بھی واقعہ اس شہر میں لوگوں کے باہمی رشتوں کو اثرانداز نہیں کر سکتا، کیوں کہ یہاں لوگوں کے درمیان باہمی تعلق کی تاریخ نہایت قدیم ہے اور وجہ یہ ہے کہ سبھی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور رہتے یوں ہیں، جیسا یہ کوئی شہر نہیں بلکہ ایک بڑا سا گھرانہ ہو۔