اردن میں تھری ڈی ٹیکنالوجی سے مصنوعی اعضاء کی پروڈکشن
عابد حسین
22 فروری 2018
اردن میں اعضاء سے محروم ہونے والے شامی اور عراقی مہاجرین کے لیے مصنوعی اعضاء کی پروڈکشن شروع ہو گئی ہے۔ ان اعضاء کی تیاری میں تھری ڈی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
طبی امداد فراہم کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اردن میں مقیم ایسے شامی اور عراقی مہاجرین کو مصنوعی اعضاء کی فراہمی شروع کر دی ہے، جو اپنے اپنے ملکوں کے جنگی حالات کے دوران معذور ہو چکے ہیں۔ یہ تنظیم یمن کی خانہ جنگی میں معذور ہونے والے افراد کو بھی مصنوعی اعضاء فراہم کرے گی۔
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق تھری ڈی ٹیکنالوجی نے انسانی جسم کے اوپری دھڑ کے بعض اعضاء کی مصنوعی پروڈکشن میں خاصی مدد کی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایک عضو کو مصنوعی طور پر تیار کرنے کی لاگت میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ مصنوعی طور پر اعضاء کی پروڈکشن میں پروستھین کا استعمال کیا گیا ہے۔
عراق کے کرد علاقے کے شہر اربیل سے تعلق رکھنے والے ایک عراقی فوجی کا ہاتھ موصل میں اسلامک اسٹیٹ کے قبضے کے دوران ایک نصب شدہ بارودی سرنگ کے پھٹنے سے ضائع ہو گیا تھا۔ ہاتھ سے محروم ہونے والے عراقی فوجی عبداللہ کو اردن میں تھری ڈی ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کیا گیا سب سے پہلا عضو یعنی مصنوعی ہاتھ اُس کے بازو کے ساتھ پیوند کاری کے ذریعے جوڑ دیا گیا ہے۔
تھری ڈی پرنٹر کیسے کام کرتے ہیں؟
01:15
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اردن کے تیسرے بڑے شہر اربد میں تھری ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے مصنوعی اعضاء کی تیاری کا ریسرچ اور پروڈکشن یونٹ گزشتہ برس جون میں قائم کیا تھا۔ اس سلسلے میں ماہر ریسرچرز کی خدمات حاصل کی گئیں۔
اعضاء سے محروم ہونے والے افراد کی تصاویر کے ذریعے تھری ڈی پروڈکشن کا سلسلہ پہلے آزمائشی طور پر شروع کیا گیا تھا۔ اربد کا مرکز شام، عراق اور یمن کے جنگی حالات سے متاثرہ افراد کے ساتھ ساتھ پیدائشی طور پر اعضاء سے محروم افراد کو بھی خصوصی توجہ فراہم کرتے ہوئے اُن کی جسمانی محرومی ختم کرنے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے۔
طیاروں کی تیاری میں قدرت سے رہنمائی
تھری ڈی ٹیکنالوجی نے انجینیئرز اور ڈیزائنرز کو جہازوں کے ایسے پرزے ایجاد کرنے میں مدد کی ہے، جو’پیچیدہ قدرتی نمونوں‘ سے متاثر ہو کر بنائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Neder
وکٹوریہ ’’ واٹر للی‘‘
ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم کے چڑیا گھر میں والدین اپنے بچوں کو وکٹوریہ واٹر للی کے پتوں پر لٹا یا بٹھا کر تصاویر بھی بنوا سکتے ہیں۔ اس پتے کو ’’واٹر للی کی ملکہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پھول دو سال تک کے بچے کا وزن برداشت کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Nederstigt
باریک بھی اور مضبوط بھی
وکٹوریہ سی روز یا واٹر للی ایک نازک مگر انتہائی مضبوط پودا ہے۔ اس کا چھوٹا پھول ایک چھوٹے بچے کا وزن برداشت کر سکتا ہے جبکہ بڑا پودہ ایک بالغ شخص کا وزن برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تصویر: Airbus
راز سے پردہ فاش کیسے ہوا؟
تھری ڈی اسکینر نے اس پتے کی بناوٹ دیکھ کر ایئر بس بنانے والے انجینیئرز نے مدد حاصل کی ہے۔ ابتدائی طور پر اسے اسکین کر کے اس کی پیچیدہ بناوٹ کو سمجھا گیا اور پھر یہ تمام اعداد و شمار کو کمپیوٹر میں محفوظ کر دیے گئے۔
سہارا دینے والے پُل
واٹر للی میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ اس میں جہاں زیادہ وزن پڑتا ہے، وہاں اس طرح کے ’پُل‘ موٹے بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے زیادہ سے زیادہ قریب بھی۔ جہاں جہاں واٹر للی کی سطح پر دباؤ کم ہوتا ہے، وہاں فاصلہ بھی زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے اور ’پُل‘ کا کام دینے والی شاخیں بھی پتلی ہوتی چلی جاتی ہیں۔
تصویر: Airbus
واٹر للی کی طرز پر بنے پَر
واٹر للی کی ساخت کو سامنے رکھتے ہوئے ایئر بس نے طیارے کے پروں میں استعمال کیا جانے والا یہ دھاتی ماڈل تیار کیا ہے۔ لیزر شعاعوں کی مدد سے تیار کردہ یہ ماڈل وزن میں بہت ہلکا لیکن انتہائی مضبوط ہے۔ کسی اور عمل کے ذریعے اسے تیار کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔
تصویر: DZP/Ansgar Pudenz
ایئر بس میں اختراعی سرگرمیاں
پیٹر زانڈر نے ہیمبرگ میں تھری ڈی پرنٹنگ کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ واٹر للی کی طرز پر بنے پَر محض ایک منصوبہ ہیں جبکہ زانڈر نے ہیمبرگ یونیورسٹی سے قریبی طور پر جڑے ہوئے ادارے ’لیزر سینٹر نارتھ‘ کے ساتھ مل کر اور بھی کئی منصوبوں کو عملی شکل دی ہے۔ سن 2016ء سے ایئر بس اپنے تھری ڈی پرنٹرز کے ساتھ طیاروں کے حصے بنانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دے گی۔
تصویر: Airbus
انتہائی چھوٹے سائز میں بھی نمونے
الفریڈ ویگینر انسٹی ٹیوٹ ہی سے یہ حیاتیاتی نمونہ لیا گیا ہے۔ اس میں ایک یک خلوی الجی کی خوردبین سے لی گئی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس چھوٹے سے وجود کے ڈھانچے کو بہت بڑا وزن اور دباؤ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے ارتقا کا عمل شروع ہوا ہے، یہ الجی اسی طرح کی خصوصی ساخت کے ذریعے حد سے زیادہ دباؤ کو برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔
تصویر: Alfred-Wegener-Institut für Polar und Meeresforschung
یک خلوی الجی کی طرز پر
ماہرین نے یک خلوی الجی کی ساخت کو سامنے رکھتے ہوئے اس طرح کے وزن میں انتہائی ہلکے ڈھانچے تیار کیے ہیں، جنہیں طیاروں یا موٹر گاڑیوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سہارا دینے کے لیے استعمال ہونے والی یہ پلیٹیں بھی تھری ڈی پرنٹر ہی کی مدد سے تیار کی گئی ہیں لیکن یہ دھات سے نہیں بلکہ پلاسٹک سے بنائی گئی ہیں۔
تصویر: DW/Fabian Schmidt
واپس طیارے میں
اس تصویر میں ایسا ایک پورا طیارہ دیکھا جا سکتا ہے، جس کا خاکہ حیاتی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ اس کا پورا ڈھانچہ ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے اس کی نمو ایک درخت کی طرح سے ہوئی ہو۔ تاہم ایئر بس کا یہ خاکہ ابھی عملی شکل اختیر کرنے کی منزل سے بہت دور ہے۔ حقیقت میں اس طرح کا منظر دیکھنے کے لیے شاید ہمیں ابھی مزید چند عشرے انتظار کرنا ہو گا۔
تصویر: AIRBUS S.A.S.
مستقبل کا طیارہ
سن 2016ء سے ایئر بس میں دھات سے چیزیں تیار کرنے والے تھری ڈی پرنٹرز کام کرنے لگیں گے۔ شروع میں چھوٹے سائز ہی کے پُرزے بن سکیں گے، زیادہ سے زیادہ ایک میٹر تک کے۔ پورے کے پورے طیارے، جیسا کہ اس تصویر میں نظر آ رہا ہے، ان پرنٹرز سے اتنی جلدی برآمد نہیں ہو سکیں گے۔ لیکن چھوٹے پُرزوں کا مطلب بھی یہ ہے کہ طیاروں کے وزن میں کافی زیادہ کمی آئے گی۔ کم وزن کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایندھن بھی کم خرچ کریں گے۔