1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہاردن

اردن میں ڈرون حملہ: تین امریکی فوجی ہلاک، درجنوں زخمی

29 جنوری 2024

صدر جو بائیڈن نے شمال مشرقی ارد ن میں ایک امریکی اڈے پر حملے کے لیے ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور جوابی کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔ حملے میں کم از کم تین امریکی فوجی ہلاک اور 34 دیگر زخمی ہو گئے۔

صدر جو بائیڈن نے اس حملے کے لیے ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے
صدر جو بائیڈن نے اس حملے کے لیے ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہےتصویر: Kent Nishimura/AFP

امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے کہا ہے کہ شام کی سرحد کے قریب شمال مشرقی اردن میں تعینات امریکی افواج پر اتوار کو رات گئے کیے گئے ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہوگئے۔

صدر جو بائیڈن نے اس حملے کے لیے ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ وہ ریاست کیرولائنا جا رہے تھے، جب اس واقعے کی اطلاع انہیں دی گئی۔ وہ چرچ گئے اور اس واقعے پر قوم سے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کرنے کو کہا۔

انہوں نے کہا، ''گزشتہ رات مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے ایک مشکل گھڑی تھی اور ہمیں اس کا ہر صورت جواب دینا چاہیے۔‘‘

امریکی صدر جو بائیڈن کے علاوہ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے بھی اتوار کی رات شامی سرحد کے قریب ہونے والے اس حملے کے لیے ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

امریکہ کے عراق میں بھی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر حملے

ایران نے تاہم اردن میں اس ڈرون حملے میں تہران کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا، ''ہم نے پہلے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ خطے میں جنگی جرائم اور زیادتیوں کا جواب دینے والے مزاحمتی گروپ اسلامی جمہوریہ ایران سے احکامات نہیں لیتے۔‘‘

وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''جب کہ ہم ابھی اس حملے کے حقائق کو اکٹھا کر رہے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ یہ شام اور عراق میں سرگرم ایران کے حمایت یافتہ شدت پسند گروپوں نے کیا ہے۔‘‘

صدر بائیڈن نے مزید کہا، ''امریکہ اس حملے کے ذمہ داروں کو جواب دے بنائے گا اور اس کے لیے وقت اور طریقہ کار کا تعین ہم خود کریں گے۔‘‘

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ اردن کے ایک اڈے پر ہوا، جسے ٹاور 22 کے نام سے جانا جاتا ہےتصویر: Planet Labs PBC/picture alliance

حملے میں درجنوں امریکی فوجی زخمی

امریکی سینٹرل کمانڈ نے بتایا کہ اس ڈرون حملے میں زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد کم از کم 34 بنتی ہے۔ انہیں علاج کے لیے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔

ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس واقعے میں ایک بڑے ڈرون حملے سے ایک امریکی فوجی اڈے پر حملہ کیا گیا۔ انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ڈرون کے ذریعے بیرکوں کے قریب حملہ کیا گیا۔

امریکہ کے یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر نئے حملے

امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے اپنے ردعمل میں کہا ہے، ''ہم اپنے فوجی دستوں اور اپنے مفادات کے دفاع کے لیے تمام ممکن اقدامات کریں گے۔‘‘

امریکی اور اتحادی افواج پر حملوں کے سلسلے کا تازہ ترین واقعہ

اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کے آغاز کے بعد سے خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور یہ تازہ ترین حملہ اس صورت حال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔

فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے ایک سینیئر اہلکار سامی ابو زہری نے اس واقعے کا براہ راست تعلق غزہ کی جنگ سے بتایا ہے۔

انہوں نے روئٹرز کو بتایا، ''تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت امریکی انتظامیہ کے لیے ایک پیغام ہے کہ جب تک غزہ میں بے گناہوں کا قتل نہیں رکتا، اسے پوری قوم کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

امریکہ اور برطانیہ کے یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں پر حملے

ڈرون حملے میں ہونے والی یہ ہلاکتیں ایسے واقعات میں امریکی فوجیوں کی تازہ ترین ہلاکتیں ہیں جو خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہ واقعہ یمن میں حوثیوں کے لیے ہتھیاروں کو ضبط کرنے کی کارروائی کے دوران لاپتہ ہونے والے امریکی بحریہ کے دو جوانوں کو مردہ قرار دیے جانے کے چند دن بعد پیش آیا ہے۔

ایرانی حمایت یافتہ حوثی امریکی اہداف کو نشانہ بناتے رہے ہیںتصویر: Mohammed Hamoud/Anadolu/picture alliance

حملے کا اصل مقام متنازعہ

پینٹاگون نے کہا کہ حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے عراق اور شام میں امریکی اور اتحادی افواج پر 150 سے زیادہ حملے ہو چکے ہیں۔ جواب میں، واشنگٹن نے دونوں ممالک میں جوابی حملے کیے ہیں۔

اردن کی حکومت کے ایک ترجمان نے سرکاری نشریاتی ادارے المملکہ کو بتایا کہ یہ حملہ مملکت سے باہر شام کی سرحد کے پار ہوا ہے۔

امریکی قیادت والے اتحاد نے بحیرہ احمر کے حملوں پر حوثی باغیوں خبردار کیا

لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ اردن کے ایک اڈے پر ہوا، جسے ٹاور 22 کے نام سے جانا جاتا ہے، جو کہ شام کی سرحد کے قریب واقع ہے اور اس کا استعمال زیادہ تر ایسے فوجی کرتے ہیں جو اردن کی افواج کے لیے مشاورت اور معاونت کے مشن میں شامل ہیں۔

امریکی فوج ایک طویل عرصے سے اردن میں مقیم ہے، وہاں بالعموم تین ہزار امریکی فوجی تعینات رہتے ہیں۔

ج ا / ص ز، م م (ا ے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں