اردن کو سماجی اور معاشرتی عدم استحکام کا سامنا
14 جنوری 2011اردن کے سماج میں مخفی بے چینی کا حکومت اور سماجی حلقوں کو احساس اس وقت ہوا، جب وسطی مغربی زرعی شہر السلط میں ایک نوجوان پولیس کی فائرنگ میں ہلاک ہو گیا حالانکہ یہ اردن کے پرسکون شہروں میں سے ایک ہے۔
اس کے بعد ہلاک ہونے والے نوجوان کے قبیلے خرسات کی السلط قبیلے کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ مشتعل عوام نے پولیس پر پتھراؤ کرنے کے ساتھ ساتھ بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں اور پولیس موٹرگاڑیوں کونذز آتش بھی کردیا۔
اردن کا مجموعی معاشرہ قدیم تہذیبی اقدار کا حامل ہوتے ہوئے قبائلی عصبیت کا حامل بھی ہے۔ بڑے شہروں میں جدید تمدن نے ضرور فروغ پایا ہے لیکن بڑی زرعی آبادیاں آج بھی اپنے قبائلی طرز معاشرت پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ سماجی و معاشرتی تفریق کے اثرات اردن کے قبائلی شہریوں پر پڑنا شروع ہو گئے ہیں اور اس کی وجہ سے سکیورٹی اہلکاروں اور آپس میں ان کے جھگڑوں میں شدت آ چکی ہے۔ یہ جھگڑے محکمہ داخلہ کے لیے پریشانی کا باعث خیال کیے جاتے ہیں۔
اس سارے فساد کے پیچھے قبائلی قوانین کو ریاستی دیوانی معاملات پر جب ترجیح دی جاتی ہے تو تفریق کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اردن کے بڑے قبیلے شاہی حکومت کے حامی خیال کیے جاتے ہیں اور ان جھگڑوں نے شاہی حکومتی ساکھ کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ بعض شہریوں کا کہنا ہے کہ دیوانی معاملات میں روایتی قبائلی قوانین کو فوقیت دینا حکومتی رضامندی کے تابع ہے اور یہی فساد کی جڑ ہے۔
حالیہ مہینوں میں اردن کے جنوب میں تناؤ اور کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کشیدگی کی وجہ سے Jalwa اور کرک کے شہروں سے کئی خاندانوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے۔ یہ جھگڑے بستیوں سے نکل کر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ان فسادات کے پیچھے قبائلی عصبیت کارفرما ہے اور یہ لوگ خود کو قبائلی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس وقت اردن کو شدید اقتصادی مسائل کا سامنا ہے اور جھگڑوں اور فسادات کی ایک یہ بھی اہم وجہ ہے۔ افراط زر زیادہ ہونے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ حکومت کا اقتصادی ڈھانچہ کمزور ہونے لگا ہے اور روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ سرکاری اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی بھی عوام میں اشتعال کا سبب بن رہی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل