اردن کی اعلی عدالت نے مذہبی اور سیاسی جماعت اخوان المسلمون کی شاخ کو ملک میں اپنی’آئینی اور قانونی حیثیت‘ ثابت کرنے میں ناکام رہنے کے بعد تحلیل کر دیا ہے۔
اشتہار
اخوان المسلمون نے تاہم اس فیصلے کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیا اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ تنظیم کو ایک قابل قبول فریم ورک کے اندر قانونی حیثیت دینے کے لیے تیار ہے۔
ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عدالت نے اخوان المسلمون کے حوالے سے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے اس تنظیم کو تحلیل کردیا ہے کیوں کہ یہ اردنی قانون کے تحت اپنی قانونی حیثیت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ ”اردنی عدالت کی طرف سے صادر کردہ فیصلہ 2013/2020 میں کہا گیا ہے کہ اخوان المسلمون ملک میں اپنی آئینی اور قانونی حیثیت ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لہٰذا اسے تحلیل کر دیا جائے۔“
یہ فیصلہ اخوان المسلمون کے خلاف اور تنظیم کے ایک ذیلی گروپ کو منقولہ اور غیر منقولہ اراضی کی منتقلی باطل قرار دینے سے متعلق سنہ 2015 میں دائر کردہ درخواست پر دیا گیا ہے۔ تازہ فیصلے کے مطابق اردن میں اب اخوان المسلمون کو سنہ 2015ء میں جاری کردہ قانونی لائسنس معطل کردیا گیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اخوان المسلمون کا قیام مصر میں 1928میں عمل میں آیا تھا جبکہ اس تنظیم کے اردنی شاخ کی بنیاد 1945 میں رکھی گئی تھی۔ اخوان المسلمون کو عشروں سے اور بالخصوص 2011 کے عرب بہار کے بعد سے زبردست مشکلات اور دباو کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مصر اسے ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دے چکا ہے جب کہ متعدد دیگر ممالک میں بھی اس پر پابندیاں عائدہیں۔
اردن میں اس تنظیم کی سیاسی شاخ عشروں تک فعال رہی تاہم 2014 میں انتظامیہ نے اسے یہ کہہ کر غیر قانونی قرار دے دیا تھا کہ اس نے اردن کے سیاسی جماعتوں سے متعلق قانون کے تحت اپنے لائسنز کی تجدید نہیں کرائی۔
سن 2016 میں سکیورٹی سروسز نے اخوان المسلمون کے عَمان کے ہیڈکوارٹرز اور دیگر علاقائی دفاتر کو بند کردیا تھا اور اس کے ذیلی گروپ کو ان کی ملکیت سونپ دی تھی۔ مرکزی اخوان المسلمون نے ان جائیدادوں کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا لیکن اس نے گزشتہ رو زجماعت کو تحلیل کرنے کا حکم سنا دیا۔
اخوان المسلمون کی اردن شاخ کے ترجمان معاذ الخالدہ نے عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسے ’حتمی‘ نہیں سمجھتے اور قانونی ٹیم اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تیاری کررہی ہے۔ معاذ کا کہنا تھا”اخوان المسلمون ایک انتظامی فیصلے کے آگے نہیں جھکے گی اور اپنی سرگرمیاں کرایے کے متبادل مکانات میں جاری رکھے گی۔“
تنظیم کی مجلس شوری کے سربراہ شیخ حمزہ منصور نے عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا”اخوان المسلمون اعتدال پسندی کا نمونہ ہے اور یہ قومی اتحاد کو مضبوط کرنے کا ایک اہم عنصر ہے۔ اس لیے اسے تحلیل کرنا قومی مفاد میں نہیں ہے۔“
معاذ الخالدہ نے شیخ حمزہ منصور کی بات کی تائید کر تے ہوئے کہا کہ ’ہمیں غیر قانونی نہیں قرار دیا گیا ہے۔ ہم اپنی تنظیم کو ایک قابل قبول فریم ورک کے اندر قانونی حیثیت دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے حکام نے (بات چیت کے) دروازے بند کردیے اور اس بحران کو حل کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ہیں۔“
القدس مرکز برائے سیاسی مطالعات سے وابستہ تجزیہ کار اریب رنتاوی کا خیال ہے کہ اس بحران کا بنیادی حل یہ ہے کہ اخوان المسلمون کو سیاست کواپنی دیگر سرگرمیوں سے الگ کرنا ہوگا۔”عدالت کا فیصلہ ان کے لیے اہم پیغام ہے کہ وہ اپنی فلاحی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں کو سیاست سے الگ رکھیں۔“رنتاوی کا مزید کہنا تھا ”اس طرح کی آوازیں خود اخوان المسلمون کے اندر سے بھی اٹھتی رہی ہیں کہ اگر تمام سرگرمیوں کو خلط ملط رکھا گیا تو ریاست اور اخوان کے درمیان تصادم جاری رہے گا۔“
اردن میں اخوان المسلمون کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس کی سیاسی شاخ اسلامک ایکشن فرنٹ کے 16اراکین ہیں۔
اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مصر کے واحد صدر محمد مرسی نے 30 جون 2012 کو اقتدار سنبھالا تھا لیکن ایک سال بعد ہی تین جولائی 2013 کو مصری فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا تھا۔ بعد ازاں مصری حکام نے اخوان المسلمون گروپ کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ مصر کے موجودہ صدر عبدالفتح السیسی نے اخوان المسلمون کے خلاف زبردست کارروائی کی جس میں سینکڑوں افراد مارے گئے جبکہ اس تنظیم کے ہزاروں کارکنان مصر کی جیلوں میں اب بھی بند ہیں۔ اس تنظیم پرسعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور خطے کے دیگر ملکوں میں پابندی عائد ہے لیکن ترکی اور قطر اس کی حمایت کرتے ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی)
مرسی کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن، سینکڑوں ہلاک
مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے اسلام پسند حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کی ہے، اخوان المسلمون کے مطابق ان کے سینکڑوں کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
مصر میں سکیورٹی فورسز اور سابق صدر محمد مُرسی کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 525 سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اس کے برعکس اخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کریک ڈاؤن کے دوران ان کے دو ہزار سے زائد حامی مارے گئے ہیں۔
تصویر: Mosaab El-Shamy/AFP/Getty Images
دریں اثناء ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے مصری سکیورٹی فورسز کی طرف سے اس کریک ڈاؤن کو ’قتل عام‘ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے فوری طور پر عملی ردعمل ظاہر کرنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: Reuters
محمد مرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمون نے کہا ہے کہ وہ فوجی بغاوت کے خاتمے تک اپنی پر امن جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے انہوں نے ہمیشہ عدم تشدد اور امن کی بات کی ہے۔
تصویر: Reuters
کریک ڈاؤن کے دوران احتجاجی کیمپ کے نزدیک واقع مسجد بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ دریں اثناء مصری فوج کے حمایت یافتہ عبوری وزیر اعظم نے معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کا دفاع کیا ہے۔
تصویر: Reuters
مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے اسلام پسند حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کی ہے۔ اخوان المسلمون کے مطابق ان کے سینکڑوں کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد مرسی کے حامی کئی ہفتوں سے دارالحکومت میں احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ معزول صدر کو بحال کیا جائے۔ قاہرہ کے شمال مشرق میں سب سے بڑے احتجاجی کیمپ میں مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق آج ملکی فوج تمام احتجاجی کیمپ ختم کروانے کی کوشش کرے گی۔ دوسری طرف مصر پولیس نے اخوان المسلمون کے اہم رہنما محمد البلتاجی کو گرفتار کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اخوان المسلمون کے کارکن پولیس کی کارروائی سے متاثر ہونے والی ایک خاتون کو پانی پلا رہے ہیں۔ اخوان المسلمون کے مطابق ہلاکتوں کے علاوہ پانچ ہزار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
احتجاجی کیمپوں کے خلاف عبوری حکومتی کارروائی کے آغاز کے بعد اخوان المسلمون کی جانب سے مصری عوام سے اپیل بھی کی گئی کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اخوان المسلمون کے ترجمان جہاد الحداد کا کہنا تھا کہ یہ احتجاجی کیمپوں کو منتشر کرنے کا عمل نہیں بلکہ فوجی بغاوت کے بعد اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی ایک خونی کارروائی ہے۔
تصویر: Reuters
رابعہ العدویہ مسجد کے قریب ایک مسجد کو مبینہ طور پر عارضی مردہ خانے کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس میں کُل 43 لاشیں پہنچائی گئی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام مرد تھے اور ان کو گولیاں لگی ہوئی تھیں۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
وزارت داخلہ کے مطابق النہضہ اسکوائر کا علاقہ اب مکمل طور پر احتجاجیوں سے خالی کرا لیا گیا ہے اور پوری طرح حکومتی سکیورٹی کے کنٹرول میں ہے۔ اس چوک میں نصب تمام خیمے بھی ہٹا دیے گئے ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق اس کیمپ سے درجنوں افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق علاقے کے مکینوں نے بھی سکیورٹی اہلکاروں کی معاونت کی ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
قاہرہ میں معزول صدر کے حامیوں نے دو احتجاجی کیمپ قائم کر رکھے تھے۔ ان میں سے ایک قاہرہ یونیورسٹی کے باہر تھا جو قدرے چھوٹا اور اپنے حجم کے اعتبار سے بڑا کیمپ رابعہ العدویہ مسجد کے باہر تھا۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
سکیورٹی آپریشن کے شروع ہونے پر فوج نے سینکڑوں ریت کے تھیلوں کو بھاری ٹرکوں پر لاد دیا تھا۔ اس کے علاوہ مظاہرین کی جانب سے تیار کردہ اینٹوں کی حفاظتی دیواروں کو بھی توڑ دیا۔ اس کام کے لیے فوج نے بلڈوزر کا استعمال کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپی یونین سمیت، ترکی، ایران، قطر اور برطانیہ نے احتجاجی کیمپوں پر سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن اور ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
فوج کی مدد سے پولیس نے اس آپریشن کا آغاز بدھ کی صبح کیا۔ اگلے تین گھنٹوں کی بھرپور کارروائی کے بعد دونوں کیمپوں کو تقریباً خالی کرا لیا گیا اور احتجاجی مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا۔