اردن کے مہاجر کیمپ پر حملہ، خفیہ ایجنسی کے اہلکار ہلاک
6 جون 2016خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق ’بقا‘ نامی اس کمیپ میں ستر ہزار سے زائد مہاجرین رہائش پذیر ہیں اور اس حملے نے اردن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اردن اپنے ہمسایہ ممالک شام اور عراق کی نسبت پر امن سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کے ترجمان محمد ال مامانی کا کہنا ہے کہ اس حملے میں مہاجر کیمپ میں قائم اردن کی خفیہ ایجنسی کے مقامی دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے اسے ایک دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق کئی مغربی امدادی ادارے اور سیاسی مبصرین اردن کے مہاجر کیمپوں اور اس ملک کے بڑے شہروں میں غربت کی وجہ سے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے بارے میں تنبيہ کر چکے ہیں۔ درجنوں افراد عمان کے بقا کیمپ کو چھوڑ کر شام اور عراق جا چکے ہیں۔ واضح رہے کہ عمان کی آبادی کا بڑا حصہ ان فلسطینی مہاجرین پر مشتمل ہے جنہوں نے سن 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد اس ملک میں پناہ لی تھی۔
اردن نہ صرف امریکا کا انتہائی قریب اتحادی ملک ہے بلکہ اردن کے اسرائیل کے ساتھ بھی قریبی عسکری تعلقات ہیں جس کی وجہ سے یہ ملک القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ سمیت دیگر سنی انتہا پسند گروہوں کے نشانے پر ہے۔ سن 2014 اور سن 2015 میں اسلامک اسٹیٹ نے عراق اور شام کے زیادہ تر علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا تاہم روس اور امریکا کی قيادت میں عسکری مہمات کے بعد کافی علاقوں پر سے اسلامک اسٹیٹ کا قبضہ ختم کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اردن اس خطے کا پہلا ملک تھا جو امریکا کی قيادت میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فوجی مہم کا حصہ بنا تھا۔
گزشتہ چند برسوں میں عمان نے بڑی تعداد ميں انتہا پسندوں کو حراست میں لیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر شام سے آئے تھے یا پھر سرحد پار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اردن کے بادشاہ عبداللہ بن الحسین کئی مرتبہ خبردار کر چکے ہیں کہ اردن کی سلامتی کو انتہا پسند سنی گروہوں سے خطرہ لاحق ہے۔ بقا کیمپ پر حملے کے بعد فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا، ’’یہ حملہ دہشت گردوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کا عکاس ہے جو مذہب اسلام کے خلاف ہے۔‘‘ دوسری جانب عمان کی سب سے بڑی سیاسی حریف جماعت، اخوان المسلمون نے اس حملے کے حوالے سے کہا، ’’اردن میں قیام امن ایک مذہبی فریضہ اور ضرورت ہے۔‘‘