اردو انتظارحسین کی چھاؤں سے محروم ہو گئی
2 فروری 2016ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز کے حامل پاکستانی ادیب انتظارحسین مختصرعلالت کے بعد لاہور میں انتقال کر گئے ہیں ۔
ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار انتظار حسین دسمبر1923 میں میرٹھ، بلند شہر، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ یوں انہوں نے بانوے برس عمر پائی۔ انتظار حسین کو اُن کی ادبی خدمات پر پاکستان سے ستارہ امتیاز ملا جب کہ فرانسیسی حکومت کی طرف سے اُنہیں فرانس کے اعلیٰ ادبی ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے ۔ وہ پچھلے چند روز سے لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں زیرِعلاج تھے۔
انتظار حسین میرٹھ کالج سے بی اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے کے بعد صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ پہلا افسانوی مجموعہ گلی کوچے 1953ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے ان کے کالم لاہور نامہ کو بہت شہرت ملی۔ وہ ریڈیو کے لیے بھی کالم نگاری کرتے رہے۔
انہوں نے آگے سمندر ہے، بستی اور چاند گہن جیسے آفاقی ناول لکھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ناولٹ دن لکھا۔ ان کے افسانے آخری آدمی، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، شہر افسوس، کچھوے، کنکرے اور گلی کوچے مشہور ہوئے۔ جل گرجے ان کی داستان کا نام ہے، جب کہ نظریے سے آگے ان کی تنقید کی کتاب ہے۔ ان کے ایک ناول اور افسانوں کے چار مجموعے انگریزی زبان میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔
لکھاری اور انسانی حقوق کے متحرک کارکن زمان خان ان کے دوست ہیں، جو ان کے ساتھ کتابوں کا تبادلہ کر لیتے تھے، ہر اتوار کو ان کے ہاں محفل میں شریک ہوتے۔ انہوں نے انتظار حسین کے جانے کو اردو ادب کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ذاتی حوالے سے انتظار حسین کو بہت عمدہ، پیارا، نفیس اورخوش مزاج انسان پایا۔
اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر انور مسعودکا کہنا ہے کہ انتظار حسین برصغیر میں اردو ادب، افسانے اور ناول کے حوالے سے سب سے معتبر شخصیت تھے۔ ’’ان کا مقام بے مثال ہے اور ایسے لوگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
اردو شاعر ، ڈرامہ نگار اور نقاد امجد اسلام امجد کے مطابق انتظار حسین نابغہ روزگار تھے۔ ان کا دور ان کی وجہ سے نثر اور افسانے کا سنہری دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایسی بلندیوں کو چھوا کہ کوئی اور نہ چھو سکا۔ امجد اسلام امجد کا کہنا ہے، ’’وہ نہایت عمدہ انسان تھے، محبت کرنے والے، دوسروں کو جگہ دینے والے اعلیٰ انسان۔‘‘
کالم نگار وجاہت مسعود انتظار حسین کو انتظار بھائی کہتے تھے اور آج ہی ایک روزنامے میں ان کی صحت یابی کے لیے دعائیہ کالم لکھا تھا۔ وحاہت مسعود کے مطابق انیس سو چوراسی میں فیض احمد فیض کے انتقال کے بعد اردو ادب کے لیے یہ سب سے بڑا صدمہ ہے۔’’کسی بھی سوچنے والے کا جانا بڑا سانحہ ہوتا ہے مگر ایک ایسی شخصیت کا جانا جس نے مختلف جہتوں میں حصہ ڈالا ہو، صورت گری کی ہو بہت بڑا خلا پیدا کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے ادیب کی آزادی، نظریہ کے ہوتے ہوئے اندرونی واردات اور کشمکش کے ساتھ مخلص ہو کر ادبی تھیوری میں حصہ ڈالا۔ ان کا کہنا تھا یہ تو ‘دِگر دانائے راز آید کہ ناید‘ والا معاملہ ہے۔