اردو کے عظیم ادیب اور نقاد شمس الرحمان فاروقی انتقال کر گئے
مقبول ملک
25 دسمبر 2020
دور حاضر کے عظیم اردو ادیب، شاعر اور نقاد شمس الرحمان فاروقی پچاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ 1935ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا انتقال بھارت کے شہر الہٰ آباد میں ہوا۔
اشتہار
شمس الرحمان فاروقی 30 ستمبر 1935ء کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے 1955ء میں الہٰ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی تھی۔ انہوں نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز 1960 کی دہائی میں کیا تھا۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں انہوں نے بھارتی محکہ ڈاک میں ایک اعلیٰ انتظامی عہدے پر برس ہا برس تک خدمات انجام دی تھیں۔ اس عہدے سے وہ تقریباﹰ ایک چوتھائی صدی قبل ریٹائر ہو گئے تھے۔
اشتہار
نصف صدی سے زائد کا ادبی سفر
ان کا نصف صدی سے بھی زائد عرصے پر محیط ادبی سفر اتنا ہمہ جہت اور متاثر کن تھا کہ وہ بھارت میں اردو اور انگریزی نثر اور شاعری کی اہم ترین شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی موت کی تصدیق ان کی بیٹی مہر فاروقی نے آج جمعہ پچیس دسمبر کو اپنی ایک ٹویٹ میں کی۔ مہر فاروقی نے لکھا، ''ابا آج اس دنیا سے پرسکون طور پر رخصت ہو گئے۔‘‘
ایک عظیم ادبی تخلیق کار اور عہد حاضر میں اردو ادب کی سب سے قد آور زندہ شخصیات میں شمار ہونے والے شمس الرحمان فاروقی کو 1996ء میں سرسوتی سمّان اعزاز بھی دیا گیا تھا اور 2009ء میں بھارتی حکومت نے انہیں پدما شری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
'کئی چاند تھے سرِ آسماں‘
مرحوم شمس الرحمان فاروقی کی مشہور ترین ادبی تصنیفات میں سے ایک ان کا اردو ناول 'کئی چاند تھے سرِ آسماں' ہے، جو انہوں نے وزیر خانم اور ان کے دور حیات کے بارے میں 2006ء میں لکھا تھا۔ وزیر خانم اردو کے ممتاز شاعر داغ دہلوی کی والدہ تھیں۔
شمس الرحمان فاروقی نے زیادہ تر 19 ویں صدی کے دلی شہر کے بارے میں لکھا گیا اپنا یہ ناول خود ہی انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ انگریزی میں اس کا نام The Mirror of Beauty ہے اور یہ 2013ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ ناول ڈی ایسی سی پرائز فار لٹریچر کے لیے بھی شارٹ لسٹ ہوا تھا۔
'زمین سے طلوع ہونے والا سورج‘
شمس الرحمان فاروقی کی 2014ء میں شائع ہونے والی انگریزی کتاب The Sun That Rose from the Earth بھی ان کی اہم تصانیف میں شمارہوتی ہے۔ اس میں انہوں نے 1857ء کی جنگ میں شکست کے تناظر میں شمالی بھارتی شہروں دہلی اور لکھنؤ میں 18 ویں اور 19 ویں صدی کے اردو ادبی کلچر کو موضوع بنایا ہے۔
انہیں 1996ء میں دیا جانے والا سرسوتی سمّان انعام اردو ادب کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں 'شعرِ شور انگیز‘ کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ یہ تخلیق چار حصوں پر مشتمل ان کی ایک ایسی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے کلاسیکی اردو غزل اور 18 ویں صدی کے عظیم اردو شاعر میر تقی میر کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔
شمس الرحمان فاروقی تقریباﹰ ڈیڑھ ماہ قبل کورونا وائرس کا شکار بھی ہو گئے تھے مگر ایک ماہ بعد وہ کووڈ انیس نامی وبائی بیماری سے بظاہر صحت یاب ہونے کا باوجود اپنے بڑھاپے کی وجہ سے اس مرض کے ضمنی طبی اثرات سے پوری طرح نکل نہیں پائے تھے۔
جے پور ادبی میلہ
جے پور میں بھارت کا بڑا ادبی میلہ جاری ہے۔ اس میں ہندی، اردو اور انگریزی سمیت مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے مصنفین، ادیب اور سماجی شخصیات شریک ہیں۔ یہ میلہ تیئس جنوری سے شروع ہو کر ستائیس جنوری کو ختم ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Sehgal
دنیا بھر کا ادب ایک جگہ
اس میلے میں دنیا کے بیس ممالک سے تعلق رکھنے والے تین سو سے زائد ادیب شریک ہیں، جو پینتیس مختلف زبانوں میں ادب تخلیق کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/J. Sehgal
ششی تھرور
ادب کسی بھی معاشرے میں سماج اور سیاست سمیت انسان کی زندگی کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ جے پور لٹریچر فیسٹیول میں بھی مختلف سماجی شخصیات نے بھارتی معاشرے میں ہوتی تبدیلیوں اور ان کے ممکنہ تدارک کے لیے نئے راستوں کی ضرورت پر زور دیا۔ اس میلے میں معروف سیاسی شخصیت اور لکھاری ششی تھرور مرکز نگاہ رہے۔
تصویر: DW/J. Sehgal
میلے پر بھارت میں شہریت کے نئے قانون کے سائے
بھارت میں حال ہی میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے منظور کروائے گئے شہریت ترمیمی قانون کے سائے بھی اس میلے پر واضح نظر آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف محفلوں میں بھارت میں نچلی ذات کے افراد کے مسائل پر بھی گفت گو ہوئی۔
تصویر: DW/J. Sehgal
کشمیر کا موضوع بھی زیر بحث
ودھو ونود چوپڑا کی تازہ فلم شکارہ میں کشمیری پنڈتوں کے موضوع کو فلمایا گیا ہے۔ اس میلے میں انہوں نے بھارتی کشمیر کے معاملے پر حاضرین کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی آواز لوگوں تک پہنچانا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔
تصویر: DW/J. Sehgal
کشمیر کی ایک طاقت ور آواز
آبھا ہنجورہ کا تعلق بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہے۔ یہ لڑکی یوٹیوب پر ان دنوں کشمیری لوک موسیقی کی وجہ سے شہرت پا رہی ہے۔ اس نے اس لوک موسیقی میں پاپ میوزک کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ گلوکارہ اپنے گیتوں میں کشمیری شہریوں کی کہانیوں کو لوگوں کے سامنے لاتی ہے۔
تصویر: DW/J. Sehgal
انگریزی مصنف لیم سیسے کی پرفارمنس
برطانوی لکھاری لیم سیسے نے جے پور لٹریچر فیسٹیول میں اپنی کتاب’’مائی نیم از وائے‘‘ کے مختلف چیپٹرز اپنے مخصوص انداز سے پڑھ کر سنائے۔ اس میلے میں بین الاقوامی ادیبوں نے اپنے اپنے معاشروں میں انسانوں کو لاحق بنیادی مسائل کو اپنی گفت گو کا موضوع بنایا۔
تصویر: DW/J. Sehgal
خواتین اور معاشرہ
حالیہ کچھ عرصے میں دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے آوازوں میں تیزی آئی ہے اور خصوصاً سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے خواتین کے حقوق سے متعلق آگہی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسی موضوع پر جے پور ادبی میلے میں ایک سیشن مخصوص کیا گیا تھا، جس میں خواتین نے مسائل اور مستقبل پر تفصیلی بات کی۔
تصویر: DW/J. Sehgal
ملالہ کی کتاب توجہ کا مرکز
اس ادبی میلے میں پاکستان سے تعلق رکھنا والی دنیا کی کم عمر ترین نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی آپ بیتی “آئی ایم ملالہ” بھی توجہ کا مرکز رہی۔ ادبی میلے میں نوجوانوں نے یہ کتاب خریدنے میں خصوصی دلچسپی دکھائی۔
تصویر: DW/J. Sehgal
کتابیں پڑھیے
اس میلے میں ایک بورڈ ہر جانب دکھائی دیتا ہے۔ “کتاب میری سب سے اچھی دوست ہے”، یہاں آنے والے افراد آتے خالی ہاتھ ہیں، مگر جاتے ہوئے ان کے ساتھ ایک بہترین دوست ضرورت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/J. Sehgal
ماڈل، ایکٹر اور مصنف لیزا رانی رے بھی میلے میں
بھارتی نژاد کینیڈین ماڈل اور اداکارہ لیزا رانی رے ایک طویل عرصے عوامی منظر نامے سے غائب رہیں، مگر اب وہ ایک مرتبہ عوامی سطح پر موجود ہیں۔ انہوں نے میمنزم یعنی زر پرستی یا سرمائے کی بے تحاشا حرص کے موضوع پر گفت گو کی۔
تصویر: DW/J. Sehgal
راجستھانی ذائقے بھی
معاشرے کی پہچان اگر ادب ہے تو اس کی شناخت اس خطے کے کھانے بھی ہوتے ہیں۔ اس میلے میں راجستھانی کھانے بھی رکھے گئے ہیں، جو مخصوص انداز سے پیش اور نوش کیے جاتے ہیں۔