1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ارسا چیئرمین کی تقرری کا فیصلہ واپس

عبدالستار، اسلام آباد
14 مارچ 2024

وزیراعظم شہباز شریف نے ارسا چیئرمین کی تقرری کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ لیکن وزیراعظم کے اس اقدام کی وجہ سے ارسا ترمیمی ارڈیننس سمیت کئی مسائل پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

Shahbaz Sharif
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

وزیراعظم کے اس فیصلے پر سندھ کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور شہباز شریف نے سندھ کے وزیر اعلٰی مراد علی شاہ سے ٹیلی فون پر بات چیت کر کے ہی یہ فیصلہ واپس لیا ہے۔

تاہم سیاست دانوں اور زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ وزیراعظم نے اتنے حساس معاملے پر نہ صرف یہ کہ اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ فیصلہ انتہائی عجلت میں کیا، جس کے ممکنہ طور پہ نقصانات بھی ہو سکتے تھے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر ظفر محمود  کو ارسا کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ اس تقرری پہ سندھ کے وزیراعلٰی مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے یہ فیصلہ ایک ایسے آرڈیننس کے تحت کیا جو متنازعہ ہے اور جس کی قانونی حیثیت کے حوالے سے ابھی بھی سوالات ہیں۔

متنازعہ آرڈیننس کے تحت تقرری

واضح رہے کہ وزیر اعظم نے یہ تقرری ارسا  ( انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) ترمیمی آرڈیننس دوہزار چوبیس کے تحت کی تھی، جس پر پہلے ہی کئی حلقے اعتراضات کر رہے تھے۔

 سندھ آبادکار بورڈ کے صدر محمود نواز شاہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ جس آرڈیننس کے تحت یہ تقرری کی گئی تھی، وہ نافذ ہو بھی گیا تھا یا نہیں۔‘‘ محمود نواز شاہ کے مطابق وہ آرڈیننس قومی مفادات کی کونسل کے فیصلے، انیس سو بانوے کے   پانی  کا معاہدہ اور دوسری آئینی شقوں کے بظاہر خلاف تھا. ''لہذا ایسے متنازعہ آرڈیننس کے تحت چیئرمین کا تقرر بالکل نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔‘‘

پانی تو پانی ہے یہی زندگانی ہے لیکن چولستان میں تو مسائل اور ہیں

06:47

This browser does not support the video element.

محمود نواز شاہ کا کہنا تھا کہ اصولاً تو وزیراعظم کو آرڈیننس کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔ '' پانی جیسے حساس مسئلے یا کسی ایسے مسئلے جس میں صوبوں کے مفادات کا معاملہ ہو، وزیراعظم کو بہت محتاط ہونا چاہیے ورنہ اس سے وفاق کے لیے مسائل بڑھیں گے۔‘‘

فیصلے کے خلاف غصہ

اس فیصلے کے فوراً بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے اسے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا تھا. سندھ میں اس فیصلے کے خلاف بھرپور رد عمل سامنے آیا تھا، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، جئے سندھ محاذ اور عوامی تحریک نے بھی اس فیصلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا تھا۔

اتحادیوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا

کچھ سیاسی کارکنانوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے یہ اقدام حکومتی اتحاد میں درا ڑیں ڈال سکتی ہے۔ نیشنل پارٹی کی ایک رہنما اور سابق رکن بلوچستان اسمبلی یاسمین لہڑی کا کہنا ہے کہ چھوٹے صوبے تو دور کی بات وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسرے اتحادیوں کو اس مسئلے پر اعتماد میں نہیں لیا۔ یاسمین لہڑی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وزیراعظم کے اس فیصلے کے فوراً بعد چھوٹے صوبوں میں اس پر بحث ہو رہی تھی اور اس کی آئینی حیثیت پہ سوال اٹھائے جا رہے تھے۔‘‘ یاسمین لہڑی نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس بات کی وضاحت پیش کرے کہ ارسا ترمیمی آرڈیننس کی اس وقت قانونی اور آئینی حیثیت کیا ہے۔ ''اگر اس کو نافذ کیا گیا ہے تو اسے فوری طور پر پارلیمنٹ میں لے کے جانا چاہیے اور اس پر بحث ہونی چاہیے۔‘‘

ارسا ( انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) کے ایک سابق رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' 60 اور 70 کی دہائی میں مختلف ڈیموں کے بننے کے بعد پاکستان  میں پانی کی مقدار اچھی خاصی ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود پانی کی تقسیم کے حوالے سے کوئی فارمولا وضع نہیں کیا گیا۔‘‘

اس رکن کے مطابق بڑی مشکل سے انیس سو بانوے میں پانی کی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق ہوا۔ '' لہذا کوئی ایسا کام نہیں ہونا چاہیے کہ اس اتفاق کو نقصان پہنچے۔‘‘

دیامیر بھاشا ڈیم، توقعات اور خدشات

04:00

This browser does not support the video element.

بے پناہ اختیارات 

اس رکن نے بتایا کہ ترمیمی آرڈیننس کے تحت نئے چیئرمین کو بہت سارے اختیارات دیے گئے تھے۔ '' ارسا کے پرانے آرڈیننس کے مطابق اس کے چار اراکین صوبوں سے اور ایک مرکز سے تھا۔  انہی میں سے ایک رکن ایک ایک سال کے لیے چیئرمین بنتا ہے۔ پرانے ایکٹ کے مطابق سارے اراکین کے ووٹ کی حیثیت برابر ہے اور اس میں چھوٹے یا بڑے صوبے کا کوئی سوال نہیں ہے۔‘‘

اس رکن کے مطابق نئے چیئرمین کو مالیاتی اور سزا نافذ کرنے کے اختیارات بھی دے دیے گئے تھے۔ '' وہ ماہرین کی ٹیم کا بھی تقرر کر سکتا تھا اور بوقت ضرورت کسی فیصلے پہ عمل درآمد کرانے کے لیے قانون نافذ کرنے والوں کی بھی مدد لے سکتا تھا۔‘‘

اصل کہانی

ارسا  ( انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) کے ایک ذریعہ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''دراصل ایک طاقت ور ریاستی ادارہ  فورٹ عباس اور چولستان میں زراعت شروع کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے پانی موجودہ ارسا سے ملنا مشکل تھا کیونکہ اس میں سارے اراکین اپنے صوبوں کے وفادار ہوتے ہیں۔ تاہم چیئرمین کو بے پناہ اختیارات دے کر پانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘‘

اس ذریعہ کے مطابق اسی لیے چیئرمین کا تقرر عجلت میں کیا گیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں