1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ارشد شریف قتل کیس کی تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل

8 دسمبر 2022

حکومت نے جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔ ٹیم میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار شامل ہیں۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں ارشد شریف کے قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیا ہے۔

Pakistanischer Journalist Arshad Sharif
تصویر: AP/picture alliance

پاکستانی حکومت نےسپریم کورٹ  کی ہدایت پر کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی تخقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم  (جی آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ نے ارشد شریف کے قتل سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت شروع کی تو حکومت نے جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن عدالت میں جمع کرایا۔ یہ جے آئی ٹی خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی، آئی بی کے ساتھ ساتھ پولیس اور ایف آئی اے کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔

ارشد شریف قتل کیس میں ابتدائی رپورٹ

ارشد شریف کے پراسرار قتل کے واقعے کے ہفتوں بعد اور مختلف حلقوں کی طرف سے شدید مذمت اور آزاد تحقیقات کے مطالبات کے غیر معمولی دباؤ پر پاکستانی تفتیش کاروں کی ٹیم کا ایک ابتدائی رپورٹ سامنے لائی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کو ایک منصوبے کے تحت قتل کیا گیا۔ 

ادھر اسلام آباد پولیس نے اس رپورٹ کی روشنی میں دو پاکستانی تاجر بھائیوں پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔ ان دونوں نے کینیا میں ارشد شریف کی میزبانی کی تھی۔ تاہم رپورٹ میں ارشد شریف کے قتل میں ان کے ملوث ہونے کے دعوے کے بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ کینیا کی طرف سے فوری طور پر اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

ارشد شریف کی میت کو لکڑی کے تابوت میں بند کر کے کینیا سے پاکستان پہنچایا گیا تھاتصویر: Thomas Mukoya/REUTERS

50 سالہارشد شریف پاکستان میں گرفتاری کے خطرے سے بچنے کے لیے کینیا جا کر روپوش ہو گئے تھے۔ ان پر پاکستان کے قومی اداروں کو بدنام کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔ یہ وہ الزام ہے جو پاکستان پر حکمرانی کرنے والی طاقتور فوج جو اس ملک کی 75 سالہ تاریخ کے نصف حصے پر ملک کے تمام اداروں پر چھائی رہی ہے، کے ناقدین کے لیے خاص طور سے استعمال کیا جاتا ہے۔

ارشد شریف کو 23 اکتوبر کو کینیا میں ان کی چلتی گاڑی پر گرلیوں کی بوچھاڑ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ ارشد شریف پر حملہ اور ان کی موت کی خبر عام ہوتے ہی نیروبی پولیس نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے  کہا تھا کہ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے وہ ایک بچے کے اغوا کے کیس میں ملوث ہونے کے سبب مشکوک تھی اور '' غلط شناخت‘‘  کی وجہ سے کینیا کے دارالحکومت کے باہر ایک پولیس چوکی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور اس دوران وہ گولیاں لگنے سے ہلاک ہو گئے۔

 آزاد تحقیققات کا غیر معمولی دباؤ

 'رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ سمیت صحافیوں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اداروں نے  اس قتل کی آزادانہ تحقیقات کا زور و شور سے مطالبہ کیا تھا، جس پر پاکستان کے وزیراعظم نے تحقیقات کے نتائج کو عوام کے ساتھ شیئر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ دریں اثناء افواج پاکستان اور پاکستانی صحافی برادری سمیت مقتول ارشد شریف کی والدہ رفعت آرا علوی اور ان کے دیگر اہل خانہ نے بھی حکومت سے اس کیس کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ کی ہدایات پرمشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئیتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

تحقیقاتی رپورٹ کیا کہتی ہے؟

اس قتل کی ابتدائی تحقیقات کے لیے دو پاکستانی تفتیش کاروں نے کینیا کا سفر کیا تھا، جہاں انہوں نے پولیس اورشریف کے میزبان بھائیوں خُرم اور وقار احمد  سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس کے بعد مرتب کی گئی 592 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  کینیا کی پولیس نے اس واقعے کے بعد متضاد بیانات جاری کیے۔

رپورٹ کے مطابق خُرم احمد نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ رات کو باہر کھانا کھانے کے بعد وہ ارشد شریف کےہمراہ گاڑی میں گھر جا رہے تھے کہ فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا۔

خرم کے مطابق انہوں نے گاڑی سے باہر دیکھا تو پولیس نے روڈ بلاک  کر رکھی تھی، جس پر انہوں(خرم) نے سمجھا کہ روڈ ڈاکوؤں کی طرف سے بلاک کی گئی ہے۔  اس کے بعد  وہ  رکے بغیر وہاں سے تیزی کے ساتھ گاڑی بھگانے لگے تو انہون نے گولیوں کی آوازیں سنی۔ خُرم احمد کے بقول  اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی کو فون کیا تو ان کے بھائی نے مشورہ دیا کہ وہ رُکے بغیر گاڑی چلاتے  رہیں جب تک وہ اپنے خاندانی فارم ہاؤس تک نہیں پہنچ جاتے۔ یہ فارم ہاؤس  کئی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہاں پہنچنے پر ان بھائیوں نے 'ارشد شریف کو مردہ پایا۔‘

اس رپورٹ میں اس امر پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ آیا خرم  احمد کے بیانات مشکوک معلوم ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس میں محض اتنا کہا گیا ہے کہ اس کیس میں کینیا کی پولیس غالباً مالی یا دیگر معاوضے کے عوض مبینہ طور پر اس قتل کے 'آلہ کار‘  کے طور پراستعمال ہوئی۔ تاہم اس بارے میں بھی رپورٹ میں کوئی وضاحت اور تفصیلات جو ان الزامات کے حق میں ٹھوس ثبوت کی حیثیت رکھتے ہوں، موجود نہیں ہیں۔

آزادی صحافت کا عالمی دن: ایک سال میں آٹھ پاکستانی صحافی قتل

اس تصویرمیں ارشد شریف 22 جون 2022 ء کو اسلام آباد میں ایک ایونٹ میں خطاب کرتے ہوئےتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

رپورٹ میں کینیا کی پولیس کا بیان درج ہے جس میں کہا گیا ہے،''یہ ایک منصوبہ بند، ٹارگٹڈ قتل تھا۔‘‘ غلط شناخت کے معاملے میں کینیا کی پولیس نے کسی پر الزام لگانے سے گریزکیا لیکن صرف اتنا کہا، ''اس میں کینیا، دبئی یا پاکستان کے افراد کا کردار ہو سکتا ہے۔‘‘

افغانستان میں سابقہ خاتون صحافی کا قتل

 ارشد شریف اگست میں کینیا کے سفر سے پہلے پاکستان سے نکل کر متحدہ عرب امارات گئے تھے جہاں انہوں نے کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔ رپورٹ میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ ارشد شریف کی موت کا سبب بننے والی گولیاں یا تو گاڑی کے اندر سے یا انتہائی قریبی فاصلے سے فائر کی گئی تھیں۔ تاہم باقی تمام باتوں کی طرح اس بارے میں بھی کوئی واضح بات یا ثبوت اس رپورٹ میں شامل نہیں ہے۔

ک م/ ش خ (اے پی، )

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں