1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ارشد شریف کے قتل کا ایک سال، کوئی پیش رفت نہیں

23 اکتوبر 2023

سینیئر پاکستانی صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل کو ایک برس بیت گیا لیکن ملزمان اب تک انصاف کے کٹہرے میں نہ لائے جا سکے۔

Pakistanischer Journalist Arshad Sharif
تصویر: AP/picture alliance

ارشد شریف کو کینیا میں ایک مبینہ پولیس مقابلے کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ 23 اکتوبر 2022 کو کینیا کے شہر نیروبی کے قریب مگاڈی ہائی وے پر پیش آنے والے اس واقعے کو بعد ازاں کینیا کی پولیس کی جانب سے  غلط شناخت کا واقعہ قرار دیا گیا۔

کینیا میں ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات میں پیش رفت

ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق کا  ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب عالمی اداروں کے تعاون سے کینیا میں پٹیشن فائل کی ہے جس پر پیشرفت کا آئندہ آنے والے چند روزمیں پتا چلے گا، ''میرا آفیشلی پاکستانی یا کینیا کے  حکام نے کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی انہوں نے کیا۔‘‘

ارشد شریف پر ٹارچر: پوسٹ مارٹم رپورٹ منظرعام پرلانے کا مطالبہ

پاکستان، خوف کا ماحول اور ٹکڑوں میں بٹی صحافت

پاکستان میں قانونی کارروائی کہاں تک پہنچی؟

ارشد شریف کے وکیل عمر رفیق کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر پر ڈسٹرکٹ کورٹ اسلام آباد میں کیس چل رہا تھا، جہاں نامزد ملزمان بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پیش نہ ہوئی اور نہ ہی ان کی گرفتاری عمل میں لائی جا سکی جبکہ جو گواہان تھے وہ بھی متعدد نوٹسز کے باوجود پیش نہ ہوئے جس پرکیس کو داخل دفترکردیا گیا۔

پاکستان میں ارشدشریف قتل کیس کی تحقیقات اور ازخودنوٹس

سپریم کورٹ ازخود نوٹس کے حوالے سے ارشد شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ تین سے چارسماعتوں کے بعد کیس آگے نہ بڑھ سکا۔ سابق چیف جسٹس کے روبرو آخری سماعت میں حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ کینیا کی حکومت کے ساتھ تحویل مجرمان اور مشترکہ تحقیقات کے حوالے سے معاہدہ کیا جا رہا ہے، جس کے بعد نامزد ملزمان کو گرفتارکروا کرپاکستان لایا جا سکے گا۔ ان کا تاہم کہنا تھا کہ اس کے بعد بھی معاملے پرکوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق کے مطابق یہ خاصا تکلیف دہ ہے کہ پاکستان میں سپریم کورٹ کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے معاملے پر لیے جانے والے ازخود نوٹس لینے کے باوجود تین ماہ سے اس کی کوئی سماعت نہ ہوسکی جبکہ کینیا میں کچھ بھی نہیں ہوسکا۔

ارشد شریف کینیا میں مبینہ طور پر پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے تھےتصویر: Thomas Mukoya/REUTERS

حکومت پاکستان کا اپنے شہری کو انصاف دلانے کے لیے کردار

پی ایف یو جے کے صدرجی ایم جمالی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کی بھی ذمہ داری تھی کہ کینیا کی پولیس کے ساتھ مل کر تحقیقات کرتے لیکن بدقسمتی سے ایک جے آئی ٹی بنی، جس کی نہ رپورٹ منظرعام پرآ سکی نہ ہی اس کی فائنڈنگز کے حوالے سے ارشد شریف کے اہل خانہ اور صحافتی تنظیموں کو اعتماد میں لیا گیا۔ ارشد شریف کی اہلیہ نے بھی شکوہ کیا کہ ریاست پاکستان کی بھی اس کیس میں کوئی دلچسپی نظرنہیں آ رہی کہ وہ ارشد شریف کو انصاف دلائے اورملزمان کو کیفرکردارتک پہنچائے۔

ارشد شریف کو انصاف دلانے کے لیے صحافتی تنظیموں کا کردار

صدر پی ایف یو جے جی ایم جمالی کا کہنا تھا کہ صحافتی تنظیمیں خصوصاﹰ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ گزشتہ ایک سال سے ارشدشریف کے کیس کو فالو کر رہی ہے۔ پی ایف یوجے نے ارشد شریف کی فیملی اور اہلیہ کے ہمراہ مختلف شہروں میں مظاہرے کیے لیکن اس جمالی کے مطابق بدقسمتی سے پاکستان میں انصاف کا نظام اتنا مضبوط نہیں نہ ہی عدلیہ اتنی طاقتور ہے کہ وہ ان کیسز کو ٹیک اپ کرسکے، ''اگرانصاف کی فراہمی آسان ہوتی تو اب تک ہمیں معلوم ہوجانا چاہیے تھا کہ ارشد شریف کو قتل کس نے کیا تھا۔‘‘

ارشد شریف کے قتل کے محرکات

پی ایف یو جے کے صدرجی ایم جمالی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے ایک سال گزر جانے کے بعد بھی اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ارشد شریف کے قتل کے محرکات کیا تھے۔ بظاہر تو کینیا میں ایک پولیس مقابلہ دکھایا گیا لیکن کینیا کی پولیس نے بھی اب تک اس حوالے اپنی کوئی واضح رپورٹ نہیں دی۔  اہلیہ جویریہ صدیق کا کہناتھا کہ ارشدشریف قتل سے ایک روز قبل اور قتل والے دن بھی بہت مطمئن تھے۔ ''انہیں کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ میری اور ارشد کی بالکل نارمل بات چیت ہو رہی تھی۔ ارشد شریف پرحملہ بہت اچانک اور غیرمتوقع تھا۔‘‘

ارشد شریف کے قتل کیس کی تحقیقات میں کینیا کی پولیس کے مؤقف میں تضاد پایا گیا اور ارشد شریف کے قتل میں ملوث کینیا کی پولیس کے پانچوں اہلکار بحال ہونے کے بعد ڈیوٹی پر واپس آگئے۔ پانچوں پولیس اہلکاروں کو انکوائری میں بے گناہ قرار دے دیا گیا  جبکہ 2 اہلکاروں کو سینیئر رینک پر ترقی بھی دے دی گئی۔

ارشد شريف، قتل کی خفیہ تحقيقاتی رپورٹ

صحافی ارشد شريف کے کينيا ميں قتل کے حوالے سے وفاقی تحقيقاتی ادراہ ايف آئی اے اور انٹيلجنس بيورو آئی بی، کے دو اچھی شہرت کے حامل افسران کی ٹيم کينيا گئی تھی۔ وہاں اس ٹيم نے حکام کے علاوہ کينيا  ميں مقيم ارشد شريف کے ميزبان مشتبہ پاکستا نی باشندوں کے انٹرويو کر کے اور وہاں سے ملنے والے شواہد کی روشنی ميں ايک خفيہ رپورٹ مرتب کر کے حکوت کے ذمہ داروں کو دے دی، مگر کچھ عرصہ بعد تحقيقاتی رپورٹ بنانے والے دونوں افسران کو، آفيسر آن اسپيشل ڈيوٹی (او ايس ڈی) بنا کر عہدوں سے ہٹا ديا گيا۔ ارشد شريف کی اہلیہ کا مطالبہ ہے کہ وہ رپورٹ منظر عام پر لائی جائے،

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں