1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ارطغرل، متشدد ہیرو، روبوٹ ہیروئنیں اور جلے ہوئے درخت

2 جون 2022

میں نے اپنے بچپن میں فلموں سے متاثر کردار اصل زندگی میں بھی دیکھے جو بعد ازاں اپنے بچوں کی اچھی تربیت میں شدید ہلکان بھی پائے گئے۔

تصویر: Privat

’’تو دھرتی پہ چاہے جہاں بھی رہے تجھے تیری خوشبو سے پہچان لوں گا‘‘۔ خوبصورت جذبات میں گندھا کیسا گانا ہے! آپ اس فلم کی کہانی نہ جانتے ہوں اور گانا سنیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی بہت اعلیٰ حس جمالیات کا حامل ہیرو ہے اور کوئی بہت ہی نستعلیق لیکن ذرا جدید خیالات کی مالک خاتون ہیروئن ہوں گی۔

لیکن جب فلم سے رجوع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نہیں بھئی ہیرو تو کوئی بہت ہی بگڑا ہوا غنڈہ ہے، جسے ذہنی طور پر نابالغ ایک انتہائی معصوم لڑکی سے عشق ہو گیا ہے اور وہ ماتھے پر عشق کے نام کا ٹیکا لگانے کی بجائے بدمعاش لگنے کی خواہش میں ایک پٹی باندھے زور لگا لگا کر ڈانس کر رہا ہے۔

میں نے اپنے بچپن میں ان فلموں سے متاثر کردار اصل زندگی میں بھی دیکھے جو بعد ازاں اپنے بچوں کی اچھی تربیت میں شدید ہلکان بھی پائے گئے۔

ستر اور اسّی کی دہائی کے بعد جو بھارتی فلموں کی ایک کھیپ آئی، ان میں کم و بیش ایک ہی جیسے حالات و واقعات پر مبنی کہانیاں پیش کی جاتی رہیں۔

ہیرو پہلے شریف اور معصوم سا انسان ہوا کرتا تھا پھر علاقے کے کسی غنڈے نے اس کے گھر والوں کے ساتھ کسی طرح کا ظلم کیا اور ہیرو انتقام کے جذبے میں تڑپتا بھڑکتا ویسا ہی پرتشدد رویہ اختیار کر لیتا جیسا کہ ولن کا تھا اور ولن کو اس کے ساتھیوں سمیت ایسی دھول چٹاتا ہے کہ اس کی سات نسلیں بھی بدمعاشی سے توبہ کر لیتی ہیں۔

اس کے متوازی تقریباً ہر فلم میں ایک بہت ہی شوخ اور چنچل خوامخوا بے تکے زیور میں لدی ایک ہیروئن بھی بھرتی کی جاتی رہی ہے، جس کا کام یقیناً مووی میں گلیمر کا تڑکا لگانا ہی ہوا کرتا ہے اور بس۔

نوے کی دہائی میں بننے والی ہر فلم کی سٹوری تقریباً ایک جیسی ہی رہی، ادھر پاکستان فلم انڈسٹری نے تو جٹوں، آرائیوں، گجروں اور راجپوتوں کو بہادر دکھانے کی کوشش میں تمام سماجی اقدار کی ایسی کی تیسی کر دی اور یہاں کی ہیروئنز میں اگر کوئی بات مثبت دکھائی گئی تو وہ تھی ہیرو کے لیے ناچ ناچ کے فصلیں تباہ کرنے کے علاوہ وقت پڑنے پر یہ بڑی رائفل کندھے پر دھرے اس کے شانہ بشانہ دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

بہر حال زیادہ مقبول کردار وہی رہے، جو دشمنوں کی فوج کے سامنے سینہ تان کے کھڑے رہے، گولیوں کی بوچھاڑ کو کارمینا کی گولیاں سمجھ کے نگلتے رہے اور سب کو ملیا میٹ کر کے یا تو مارے گئے یا پھر ہاسپٹل میں داخل ہو کر بچ گئے۔ ہیروئنز بھی وہ مقبول رہیں جو ہیروز کے عشق میں ہر مشکل کا دریا پار کرتی گئیں اور آخر میں ہیرو کو بطور ٹرافی مل گئیں۔

ٹرافی میں ملی ہوئی ہیروئن کا تصور اس قدر مضبوط تھا کہ اس وقت کے نوجوان اپنی محبوباؤں سے بس یہ ہی توقع کرتے کہ وہ وفا کی دیویاں ہوں گی اور اگر کوئی اور انہیں اپروچ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ لا محالہ خودکشی کر کے اپنی 'عزت کی حفاظت‘ کریں گی لیکن کسی اور کی نہیں ہوں گی۔

اب آگے چل کر زمانہ ذرا جدید ہوا ہیروز کا تصور تھوڑا اپ ڈیٹ ہوا اور کالج یونیورسٹی کا پڑھا لکھا ہیرو ستر کی دہائی کے بعد واپس موویز میں دکھائی دینے لگا۔

لیکن اب کی بار وہ ہیرو شہری بابو نہیں تھا اور اس کے مقابل کوئی سیدھی سادھی ہیروئن نہیں تھی بلکہ اب زمانہ تھا ایسی نسل سے تعارف کا جس میں لڑکیاں لڑکوں کی طرح آزاد ہیں، شوخ ہیں، پڑھی لکھی ہیں، جاب کرتی ہیں اور ایڈونچرس بھی ہیں۔

نام نہاد گھر گرہستی سے کوسوں دور ہیں اور پھر ایسے ڈائیلاگ بھی شہرت پاتے ہیں، ''یہ کون ہے جس نے پُو کو پلٹ کے نہیں دیکھا‘‘۔  یا پھر جب وی میٹ کی ہیروئن کی طرح اوور ایکٹو اوور ایکسائیٹڈ لڑکی اور مقابل ایک سادہ سا ہیرو جس کی زندگی میں رنگ وہ لڑکی ہی لاتی ہے۔

اس دور کی ہر دوسری یا تیسری فلم میں کہیں کاجول اپنی بے سلیقہ پن کے باعث ہیرو کے دل میں جگہ بناتی دکھائی دیتی ہیں تو کہیں کنگنا 'تنو ویڈز منو‘  جیسی مووی میں ایک غیر مستقل مزاج لڑکی کا رول نبھاتی ہوئی ملتی ہیں۔

البتہ اس دور میں خواتین کو صرف گلیمر نہیں بلکہ ان کی ایکٹنگ کی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کاسٹ کرنے کا چلن بھی سامنے آنا شروع ہوا اور  فارمولا مووزیز کے مار دھاڑ کرتے ہیروز اور معصوم ہیروئنز کے مقابل نسبتاً متوازن کریکٹرز اور زندگی سے قریب کہانیوں پر بننے والی فلموں نے معاملہ کچھ متوازن کیا۔

مگر غیر ملکی ڈراموں نے جب ادھر کا رخ کیا تو ایک بار پھر اسی تشدد کی نفسیات کا پرتو کریکٹر ارطغرل ہمارے سامنے پیش کر دیا گیا۔ اور اس کا اثر آپ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا بھی۔ لیکن مار دھاڑ والی موویز تو ابھی تک بن رہی ہیں، جن میں ہیرو کی بے پناہ طاقت کے سامنے ولن گینگ کا کوئی ممبر ٹک نہیں پاتا۔

انتہائی بد مزاج ہیروئن ابھی بھی فیشن میں ہے اور ان سب کی ایکسٹنشن اب آپ کو ویڈیو گیمز میں بھی نظر آتی ہے۔ وہی مار کٹائی، وہی خون خرابہ، اب آپ خود تخلیق کر سکتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں انڈین پنجابی گانوں میں جہاں اے کے سنتالیس رائفل، پستول اور دستی بم کا بے ساختہ استعمال ملتا ہے، وہیں ان میں لگائی گئی 'تڑیاں‘ سننے والے کو خوامخواہ اپنے مخالفین کا سر تن سے جدا کرنے کی طرف راغب کرتی ہیں۔

مختصراً یہ کہ نصف صدی سے بھی زیادہ تشدد، طاقت اور تہس نہس کر دینے کی نفسیات ہم اپنی سکرین کے ذریعے اپنی نسلوں کے ذہنوں میں اتارتے رہے ہیں۔

اس کا اثر کیا 'مارڈالو‘، 'جلا ڈالو‘  اور 'برباد کر دو‘  کی صورت میں سامنے نہیں آنا تھا ؟ یہ جو درخت جلے، تباہیاں مچائی گئیں یہ ایسے ہی ہو گیا؟ کیا اس سانحے کی پرورش برسوں ہماری گودوں میں نہیں ہوئی؟

مردوں اور عورتوں کے ذہنوں میں 'بیڈ بوائز‘ بطور ہیروز اور ذہنی طور پر نابالغ، اپنے حقوق سے عاری اور اپنی انسانی عظمت ہیرو کے قدموں میں وار دینے والی ہیروئن کی صورت نہیں بننا تھا کیا؟

سینسر بورڈ جن چیزوں کو 'بے حیائی‘ کہہ کر بین کرتا رہا ہے، ان میں تشدد اور عورت کو شو پیس بنا کر پیش کرنے کے خلاف بھی کوئی نکات شامل ہونے چاہیے تھے کہ نہیں؟

سوال ایک لاکھ ہو سکتے ہیں لیکن جواب ایک ہی ملے گا۔

تم ارطغرل اور اسلام آباد میں درخت جلانے کو برا کہتی ہو؟ تمہاری ۔۔۔۔ (گالیاں)۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں