ارنب گوسوامی کو بالا کوٹ پر حملے کی پیشگی اطلاع کیسے ملی؟
جاوید اختر، نئی دہلی
18 جنوری 2021
بھارت میں اپوزیشن جماعتوں نے ارنب گوسوامی کی واٹس ایپ چیٹ کی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ مذکورہ گفتگو سے بھارتی میڈیا اور مودی سرکار کا گٹھ جوڑ بے نقاب ہو گیا ہے۔
اشتہار
بھارتی نیوز چینل ریپبلک کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی اور بھارت کی براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کونسل (بارک) کے سابق سربراہ پارتھو داس گپتا کے ساتھ مبینہ واٹس ایپ چیٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی صحافی کو پاکستان کے بالاکوٹ پر 26 فروری 2019 کو بھارتی فوج کے فضائی حملے سے تین دن قبل ہی اس بارے میں سب کچھ معلوم ہو گیا تھا۔
گوسوامی اور داس گپتا کے مابین واٹس ایپ چیٹ کی تفصیلات منظر عام کے آنے کے بعد کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے ملک کی سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اشتہار
معاملہ کیا ہے؟
وزیراعظم مودی کے کٹر حامی سمجھے جانے والے ٹی وی میزبان اور ریپبلک میڈیا نیٹ ورک کے خود پسند ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی اپنے نیوز چینل کی ٹی آر پی ریٹنگ غلط اور غیر قانونی طور پر بڑھانے کے ایک کیس میں ماخوذ ہیں۔ ٹی آر پی ریٹنگ پر نگاہ رکھنے والے ادارے بارک کے سابق سربراہ داس گپتا اس کیس میں عدالتی تحویل میں ہیں۔
کشمیر ’نیوکلیئر فلیش پوائنٹ‘ ہے
06:28
اس کیس کے سلسلے میں ممبئی پولیس نے جو دستاویزات پیش کیے ہیں ان میں دونوں کے درمیان واٹس ایپ چیٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔ یہ تفصیلات گزشتہ دنوں میڈیا میں لیک ہو گئیں، جس میں کشمیر کے پلوامہ میں ہونے والے حملے اور اس کے جواب میں پاکستان کے بالاکوٹ پر بھارتی فوج کی جانب سے سرجیکل اسٹرائک کا ذکر ہے۔ یہ بات چیت سرجیکل اسٹرائیک سے تین دن پہلے کی گئی تھی۔
اس وائرل واٹس ایپ چیٹ میں گوسوامی، داس گپتا سے کہتے ہیں کہ 'کچھ بڑا‘ ہونے والا ہے۔ جس کے بعد جب ان سے کہا گیا کہ کیا وہ داود کے حوالے سے ہے تو ارنب جواب دیتے ہیں 'نہیں سر، پاکستان۔ اس مرتبہ کچھ اہم ہونے جا رہا ہے۔" داس گپتا اگلے جواب میں جب حملے کا ذکر کرتے ہیں تو ارنب کہتے ہیں ’’نارمل اسٹرائیک سے بڑی اسٹرائیک ہونے والی ہے اور اسی وقت کشمیر میں بھی کچھ اہم ہو گا۔“
قابل ذکر ہے کہ 14 فروری 2019 کو پلوامہ پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا جس میں بھارتی نیم فوجی دستے سی آر پی ایف کے 40 جوان مارے گئے تھے۔ بھارت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان کے بالا کوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کیا تھا۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے پلوامہ حملے اورسرجیکل اسٹرائیک دونوں پر سوالات اٹھائے تھے اور اسے مارچ میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں کا سوال
سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والے نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ممبئی پولیس کی چارج شیٹ میں جو واٹس ایپ سامنے آئی ہے اس سے قومی سلامتی کے حوالے سے سنگین سوالات پیدا ہوتے ہیں۔" پارٹی کے ایک دوسرے رہنما اور سابق مرکزی وزیر منیش تیواری نے پورے معاملے کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا،”اگر میڈیا میں آنے والی باتیں درست ہیں تو بالا کوٹ ایئر اسٹرائیک اور 2019 کے عام انتخابات میں ضرور کوئی تعلق ہے۔“
کانگریس کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ٹوئٹ کر کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے پوچھا ہے، ”کیا اصل اسٹرائیک سے تین دن قبل ایک صحافی (اور اس کے دوست) کو بالا کوٹ پر جوابی کارروائی کے بارے میں پتہ تھا؟ اگر ہاں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان کے ذرائع نے پاکستان کے ساتھ کام کرنے والے جاسوسوں اور مخبروں سمیت دیگر لوگوں کے ساتھ ان معلومات کو شئیر نہیں کیا ہو گا؟ قومی سلامتی سے متعلق اتنی خفیہ معلومات حکومت نواز صحافی تک کیسے پہنچی؟"
مہاراشٹر میں حکمراں شیو سینا اور مغربی بنگال کی حکمراں ترنمول کانگریس نے بھی اس واٹس ایپ چیٹ کے حوالے سے مودی حکومت پر حملہ کیا ہے۔
عمران خان کا حملہ
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر سلسلہ وار ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’انتخابات جیتنے کے لیے خطرناک فوجی مہم جوئی خطے کوغیر مستحکم کرنے کا باعث بنی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی ایڈونچر پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر سکتا تھا،”میں نے سن2019 میں اقوام متحدہ میں تقریر کے دوران بھارتی سفاکی کو عیاں کیا، میں نے بتایا کہ کیسے فاشسٹ مودی حکومت نے بالاکوٹ واقعے کو انتخابی نتائج کے حصول کے لیے استعمال کیا، حالیہ انکشافات نے مودی سرکار اور بھارتی میڈیا کے ناپاک گٹھ جوڑ کو بے نقاب کر دیا ہے۔“
وزیراعظم عمران خان کا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ”مودی حکومت نے بھارت کو شدت پسند ریاست بنانے کا کام جاری رکھا ہے، بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، بھارتی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وزیاں بے نقاب ہو چکی ہیں۔"
پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ان انکشافات نے دنیا کے سامنے بھارت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور پاکستان اپنے موقف میں ایک بار پھر سرخرو ہوا ہے،”ہم نے پہلے ہی پاکستان کے خلاف اس بھارتی پروپیگنڈے کی وضاحت کر دی تھی اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ 2019 میں پلوامہ حملے کا فائدہ بھارت کو ہوا ہے کیونکہ اس کے بعد بی جے پی نے لوک سبھا کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔"
پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈا آپریشن، پاکستان کا ردعمل
02:48
This browser does not support the video element.
ارنب کا کیا ہو گا؟
ارنب گوسوامی اپنے متنازعہ بیانات اور ٹی وی پروگراموں کی میزبانی کرتے وقت ایک خاص جارحانہ انداز اختیار کرنے کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ وہ خودکشی کے لیے اکسانے کے ایک کیس میں کچھ عرصے قبل جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔
بھارت میں سیاسی اور صحافتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ ارنب گوسوامی حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اعلی قیادت کے نور نظر ہیں لہذا ملکی سلامتی کے حوالے سے اتنے بڑے انکشاف کے باوجود ان کے خلاف کسی سخت کارروائی کی امید کرنا فضول ہے۔
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔