1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ارنب گوسوامی کو نفرت آنگیز مواد نشر کرنے پر جرمانہ

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
23 دسمبر 2020

برطانیہ میں میڈیا کے نگراں ادارے نے پاکستان کے خلاف ارنب گوسوامی کے نفرت انگیز شو کو نشر کرنے پر جرمانہ عائد کیا ہے۔ چینل سے پروگرام کے حوالے سے معافی مانگنے کو بھی کہا گیا ہے۔

Arnab Goswami indischer Journalist
تصویر: Getty Images/AFP/S. Jaiswal

برطانیہ میں میڈیا پر نظرر کھنے والے سرکاری نگراں ادارے 'آفس آف کمیونیکیشن' (آفکام) نے بھارت کے متنازعہ نیوز چینل ریپبلک ٹی وی کے ایک شو میں نفرت انگیز مواد اور غیر مہذب زبان استعمال کرنے کے لیے 20 ہزار برطانوی پاونڈ یعنی تقریباً 19 لاکھ بھارتی روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔

برطانوی ادارے نے یہ جرمانہ 'ورلڈ وائڈ میڈیا نیٹ ورک لمیٹید' نامی کمپنی پر عائد کیا ہے جس کے پاس برطانیہ میں ریپبلک ٹی وی کے پروگرام نشر کرنے کا لائسنس ہے۔ تاہم برطانوی ادارے نے اس متنازعہ بھارتی ٹی وی چینل سے بھی اپنے مذکورہ پروگرام میں نفرت انگیز مواد نشر کرنے کے لیے معافی مانگنے کو کہا ہے۔

برطانوی ادارے آفکام نے اس سے متعلق اپنے حکم میں کہا، ''اس پروگرام میں ایسے بیانات شامل ہیں جو نفرت انگیز تقریر کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس میں پاکستانی عوام کے خلاف ان کی قومیت کی بنیاد پر گالی گلوج اور توہین آمیز الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ پروگرام میں میزبان اور اس کے دیگر بھارتی شرکاء نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ کسی بھی شخص کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ اور انتہائی نازیبا ہوں گے۔''

معاملہ کیا ہے؟

بھارت میں متنازعہ نیوز چینل  'ریپبلک ٹی وی' سخت گیر ہندو نظریات پر مبنی پروگراموں اور مودی حکومت کی حمایت میں اپنی نشریات کے لیے معروف ہے۔ اس کے ہندی چینل کا نام ریپبلک بھارت ہے جس کا ایک یومیہ شو ''پوچھتا ہے بھارت'' ہے۔ اس شو کے اینکر چینل کے ایڈیٹر ارنب گوسوامی ہیں۔

برطانیہ میں گزشتہ برس چھ ستمبر کو نشر ہونے والے اسی شو کے حوالے سے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ اس پروگرام میں بھارت کے ناکام خلائی مشن چندریان پر بحث کی گئی تھی، جس کے تحت 22 جولائی 2019 کو خلائی گاڑی روانہ کی گئی تھی۔ حالانکہ بھارت کی چاند پر اترنے کی یہ کوشش تقریبا ًپوری طرح سے ناکام رہی تھی تاہم ارنب گوسوامی نے اس بحث کو بھارت بمقابلہ پاکستان میں بدل دیا تھا۔

’بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں صحافت مشکل ترين کام ہے‘

04:44

This browser does not support the video element.

ارنب نے بھارت کے کامیاب خلائی مشنوں اور تکنیکی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے بھارت کا موازنہ پاکستان سے کیا اور متنازعہ خطہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان پر شدید تنقید کی تھی۔ انہوں نے پاکستان کا نام لے کر کہا، ''ہم سائنس دان پیدا کرتے ہیں اور آپ دہشت گرد۔''

آفکام نے نشریاتی اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کا فیصلہ اس برس فروری میں ہی سنا دیا تھا تاہم اس پروگرام کے حوالے سے جرمانہ منگل 22 دسمبر کو عائد کیا گیا۔ اداے کا کہنا تھا، ''حکام نے پایا کہ یہ پروگرام مناسب سیاق و سباق کے بغیر نفرت انگیز بیانات سے پر ہے اوراس کا مواد ممکنہ طور پر انتہائی اشتعال انگیز تھا۔''

ادارے نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ مذکورہ پروگرام میں پاکستان کے خلاف انتہائی نازیبا باتیں اس وقت کہی گئیں جب کوئی بھی ایسے نفرت انگیز الزامات کا جواب دینے کے لیے موجود بھی نہیں تھا جبکہ ایسے پروگراموں سے دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات کے مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔

متنازعہ صحافی ارنب گوسوامی 

 بھارت میں بھی صحافیوں کی انجمن ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا ارنب گوسوامی کی صحافت اور ان کے جانبدارانہ رویے پر اکثر سوال اٹھاتی رہی ہے۔ گلڈ کا کہنا ہے کہ ارنب گوسوامی جس طرح کی جانبدارانہ صحافت کرتے ہیں وہ پیشہ صحافت کے شایان شان نہیں ہے۔

ارنب گوسوامی جارحانہ انداز میں مودی حکومت اور دائیں بازو کے سخت گیر نظریات کی حمایت میں بھی پیش پیش رہتے ہیں اور وہ مخالفین پر شدید تنقید کرنے میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اور انسانی حقوق کے کارکنان گوسوامی اور ان کے چینل پر جانبدارانہ  کوریج کے لیے شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب مودی حکومت اور دیگر سخت گیر ہندو تنظیمیں ان کی حمایت کرتی ہیں۔

مبصرین کے مطابق بھارتی جمہوریت میں ملکی صحافت کا کردار کلیدی رہا ہے تاہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں صحافیوں کے لیے کام کرنے میں مشکلات بڑھی ہیں۔ ایک طرف جہاں دیگر میڈیا ادارے آزادی صحافت پر قدغنوں کی شکایات کر رہے ہیں تو دوسری جانب ارنب گوسوامی اور ان کا چینل محض چند برسوں میں ہی ملکی میڈیا کے منظر نامے پر غالب آ چکے ہیں۔ 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں