اساتذہ ہڑتال نہیں کر سکتے، جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت
12 جون 2018
جرمنی کی اعلیٰ ترین عدالت نے چار اساتذہ کے ایسے مطالبات مسترد کر دیے ہیں کہ ان کو ہڑتال کرنے کی اجازت دی جائے۔ آئینی عدالت کے مطابق سرکاری عہدیداروں کو اسٹرائیک پر جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اشتہار
چار جرمن اساتذہ نے اعلیٰ ترین عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں ہڑتال کرنے کی اجازت دی جائے لیکن کارلسروہے کے ججوں نے کہا کہ پبلک آفیشلز کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔
منگل کے دن جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایسے مطالبات تسلیم نہیں کیے جائیں گے کہ پبلک سیکٹر سے وابستہ اہلکاروں پر عائد ہڑتال کی پابندی کو نرم یا ختم کر دیا جائے۔
جرمنی میں چار اساتذہ نے آئینی عدالت سے اس وقت رجوع کیا تھا، جب کام کے وقت کے دوران انہیں ہڑتال کرنے پر انضباطی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جرمن قوانین کے مطابق سرکاری اہلکار اپنے کام کے وقت کے دوران ہڑتال نہیں کر سکتے ہیں۔ تاہم ان اساتذہ نے اس قانون میں نرمی کی خاطر آئینی عدالت سے درخواست کر دی تھی۔
اس کیس کو مقامی سطح پر کافی اہمیت حاصل تھی کیونکہ اگر عدالت ان اساتذہ کو ہڑتال کی اجات دے دیتی تو اس کے نتیجے سے ایک نیا بینچ مارک بن سکتا تھا۔ یوں جرمنی میں سول سروس سے وابستہ دیگر سرکاری اہلکار بھی اس عدالتی فیصلے کے مطابق اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے۔
ان اساتذہ نے کارلسروہے میں واقع جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت سے استدعا کی تھی کہ بنیادی جرمن قوانین کے تحت انجمن سازی کی اجازت ہے اور یوں ملازمین کو ہڑتال کا قانونی حق بھی حاصل ہے۔ تاہم عدالت کے فیصلے کے مطابق سرکاری ملازمین پر ہڑتال کی پابندی جرمن آئین کے بنیادی قوانین سے متصادم نہیں ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’سرکاری ملازمین کو ہڑتال کرنے کا حق حاصل ہونے سے سول سروس سیکٹر کے ڈھانچے میں چین ری ایکشن کا باعث بنے گا، جس کے نتیجے میں پبلک سیکٹر کے بنیادی اصول متاثر ہوں گے‘۔
وفاقی جرمن آئینی عدالت کے مطابق سرکاری ملازمین کی ہڑتال پر پابندی ’یورپی کنوینشن برائے انسانی حقوق‘ سے متصادم بھی نہیں ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ اساتذہ کی ہڑتال پر پابندی تعلیم حاصل کرنے کے حق کو یقینی بناتی ہے۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے
جرمنی میں اسکول کا پہلا دن کیسا ہوتا ہے
بعض بچے انتہائی خوش تو کچھ خوفزدہ، مگر کوئی بھی بچہ اس سے بچ نہیں سکتا۔ جرمنی میں اسکول کا پہلا دن مختلف رسومات سے بھرپور ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض تو صدیوں پُرانی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
تحائف سے بھری کون
جرمنی میں کسی بھی بچے کے اسکول کے پہلے دن کی سب سے اہم بات، ’شُول ٹیوٹے‘ یا اسکول کون ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح کی علامت ہوتی ہے کہ اسکول میں بچے کے اگلے 12 یا 13 برسوں کا ہر ایک دن میٹھا رہے گا اور اس کے لیے تحائف لائے گا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو انیسویں صدی کے آغاز سے چلی آ رہی ہے۔ مخروطی شکل کی گتے کی بنی اس بڑی سی کون میں تحفے، اسکول میں استعمال کی جانے والی چیزیں اور مٹھائیاں ہوتی ہیں۔
تصویر: imago/Kickner
ایک نئے مرحلے کا آغاز
اسکول کے پہلے سال کے پڑھائی کا آغاز اگست یا ستمبر میں ہوتا ہے اور داخلے کے لیے بچی کی عمر چھ سال ہونی چاہیے۔ ان کی اکثریت پہلے ہی ڈے کیئر سنٹر یا کنڈرگارٹن میں کچھ برس بِتا چکے ہوتے ہیں جو پبلک اسکول کا حصہ نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ جرمنی میں بہت سے بچوں اور والدین کے لیے بھی پہلا سال ایک نیا مرحلہ ہوتا ہے اور بہت مختلف بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.Khan
ضرورت کے عین مطابق بستہ
اسکول کے پہلے دن سے قبل ہی والدین اپنے بچے کے لیے بیگ پیک یا کمر پر لادا جانے والا بستہ خریدتے ہیں جسے ’شول رانزن‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر چوکور شکل کا ہوتا ہے تاکہ اس میں نہ تو کاغذ یا کتابیں مڑیں اور نہ ہی کھانے کی چیزیں پھیلیں۔ بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نئے ڈیزائن اور خوبصورت ترین بیگ پیک خریدیں۔ رواں برس ’اسٹار وار‘ کے ڈیزائن والے بیگ زیادہ مقبول ہیں جبکہ سپر مین ہمیشہ سے مقبول رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسکول کے لیے ضروری اشیاء
چوکور شکل کے بستے کی خریداری کے بعد اسکول کے پہلے روز سے قبل ہی اس میں ڈالنے کے لیے چیزوں مثلاﹰ پینسلیں، پین، فٹے اور فولڈرز وغیرہ کی خریداری کا مرحلہ آتا ہے۔ جرمنی میں نو عمر طلبہ عام طور پر اسکول میں لنچ نہیں کرتے۔ اس کی بجائے بریک کے دوران کھانے کے لیے گھر پر تیار کردہ ہلکے پھلکے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جاتے ہیں اور اس کے لیے مناسب بوُکس یا ڈبے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
زندگی بھر یاد رہنے والا دن
دنیا بھر میں ہی تقریباﹰ ہر بچے کی اسکول کے پہلے دن تصویر ضرور اُتاری جاتی ہے۔ جرمنی میں بچے اس موقع پر اپنے ’شُول ٹیوٹے‘ کے ساتھ تصویر بنواتے ہیں، جو بعض اوقات ان کے اپنے قد سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ مگر بچوں کے لیے عام طور پر یہ مصروفیت ان کے اسکول کے پہلے دن کی سب سے اہم بات نہیں ہوتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Hirschberger
دعاؤں کے ساتھ آغاز
جرمنی میں اسکول کا پہلا دن دراصل اسکول سے شروع نہیں ہوتا، بلکہ ایک خصوصی تقریب سے اس کا آغاز ہوتا ہے جس میں بچوں کے والدین اور دیگر رشتہ دار بھی مدعو ہوتے ہیں۔ چرچ میں دعائیہ تقریب بھی عام طور پر اس روایت کا حصہ ہوتی ہے تاکہ نیا تعلیمی سلسلہ شروع کرنے پر بچوں کو دعاؤں سے نوازا جائے۔ بعض اسکول مسلمان بچوں کے لیے بین المذاہب تقریب کا اہمتام بھی کرتے ہیں۔ مسلمان بچوں کے لیے چرچ جانا ضروری نہیں ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تجربہ کار لوگوں کی طرف سے رہنمائی
تقریب کے دوران اسکول کی بڑی کلاسوں کے طلبہ یا اساتذہ کی طرف سے نئے آنے والے بچوں کو پرفارمنس کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ اسکول کی مصروفیات کیا ہوں گی یا اسکول میں کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے۔ بعض اسکولوں میں ہر نئے آنے والے بچے کو تیسری یا چوتھی کلاس کا ایک بچہ اپنے ساتھ لے جا کر کلاس رُوم وغیرہ دکھاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
اسکول کی عمارت کا تعارفی دورہ
پہلے روز کی مصروفیات میں بچوں کو اسکول کی عمارت کا ایک تعارفی دورہ بھی شامل ہوتا ہے اور پہلی کلاس میں آنے والے بچوں کو ان کی کلاسیں بھی دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں نئے آنے والے بچوں کے لیے کلاس میں خوش آمدید لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/G. Kirchner
فیملی گیٹ ٹو گیدر
اسکول میں ہونے والی تقریب کے بعد خاندان اپنے طور پر اس اہم دن کو منانے کا اہتمام کرتے ہیں جس میں دادا، دادی، نانا، نانی، خاندان کے دیگر افراد اور دوستوں وغیرہ کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر خصوصی کھانے اور کیک وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں۔ مہمان اور خاندان کے افراد کی طرف سے بچے کو تحائف بھی ملتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/R. Goldmann
اسکول کا دوسرا دن
اسکول کی تقریب، کیک اور خصوصی کھانوں وغیرہ اور ’شُول ٹیوٹے‘ کھولے جانے کے ساتھ ہی عموماﹰپہلا دن تمام ہوتا ہے۔ اسکول کے دوسرے دن پہلی کلاس میں آنے والے یہ بچے اپنا پہلا سبق شروع کرتے ہیں۔ جرمنی میں ایلیمنٹری اسکول پہلی سے چوتھی تک ہوتا ہے۔ جس کے بعد وہ اپنی کارکردگی کی بناء پر تین مختلف طرح کے اسکولوں میں سے کسی ایک میں چلے جاتے ہیں۔