اسامہ بن لادن کی زندگی
2 مئی 2011مختلف اطلاعات کے مطابق اپنی تعلیم کے دوران ہی اسامہ بن لادن کے رابطے ایسے مسلمان اساتذہ اور طالب علموں سے ہوئے، جو انتہا پسندانہ نظریات رکھتے تھے۔ 1979ء میں جب سابقہ سوویت یونین کی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا تو کئی دیگر مسلمانوں کی طرح اسامہ بن لادن نے بھی افغان مزاحمت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔
1989ء میں افغان جنگ کا خاتمہ ہوا تو اسامہ بن لادن ایک ہیرو کی طرح واپس سعودی عرب پہنچا۔ تاہم بعد ازاں وہ سعودی عرب میں بدعنوانی اور وہاں امریکی افواج کی تعیناتی پر ناخوش دکھائی دیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ مغربی ممالک مسلم ممالک کے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ اسی لیے 1988ء کے اواخر میں اسامہ بن لان نے ایک نیٹ ورک بنایا، جس کا نام القاعدہ رکھا گیا۔ اس نیٹ ورک میں کئی دیگر انتہا پسند مسلمانوں کے علاوہ زیادہ تر وہ جنگجو شامل ہوئے، جو افغان جنگ کے دوران اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی رہے تھے۔
اس نیٹ ورک نے دنیا بھر میں امریکی اور مغربی ممالک کے سول اور فوجی ٹھکانوں پر دہشت گردانہ حملے کرنا شروع کر دیے۔ حکومتی نظام کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے 1994ء میں ریاض حکومت نے اسامہ بن لادن کی شہریت منسوخ کر دی۔ اس کے بعد اسامہ بن لادن نے سوڈان کا رخ کیا اور وہاں جنگجوؤں کی تربیت کا کام شروع کیا لیکن 1996ء میں اسے وہاں سے بھی نکال دیا گیا۔ تب اسامہ بن لادن نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کا رخ کیا، جہاں طالبان ملیشیا نے اس کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ اسے تحفظ بھی فراہم کیا۔
1996ء تا 1998ء اسامہ بن لادن نے امریکہ کے خلاف'جہاد' کے فتوے جاری کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسامہ اور اس کے دہشت گرد نیٹ ورک نےامریکہ کو اسلام کا دشمن قرار دیا اور واشنگٹن حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ نہ صرف مسلم دنیا کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہے بلکہ ایسی قوتوں کی پشت پناہی بھی کر رہی ہے، جو اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔
اسامہ بن لادن نے گیارہ ستمبر2001ء کو امریکہ پر ہوئے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تو امریکی افواج نے اس دہشت گرد نیٹ ورک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے افغانستان میں فوجی کارروائی شروع کر دی۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کی ایک طویل جنگ کے بعد بالآخر آج یعنی دو مئی کو پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی