اسامہ کی ہلاکت کے بعد پاک امریکہ تعلقات
5 مئی 2011القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی پہلی معلوم کوشش اگست 1998ء میں کی گئی تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے احکامات پر امریکی بحریہ نے بحیرہ ء عرب سے مشرقی افغانستان کے علاقے خوست میں واقع مختلف کیمپوں پر 66 کروز میزائل داغے تھے۔ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی یہ کوشش کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں کی گئی تھی۔
اس وقت امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو اطلاع ملی تھی کہ القاعدہ نیٹ ورک کی اعلیٰ قیادت اہم ملاقات کے لیے خوست میں جمع ہو رہی ہے۔ لیکن اس حملے سے پہلے ہی اسامہ بن لادن نے خوست کا دورہ ملتوی کر دیا تھا۔ کئی امریکی حکام نے اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے اسامہ بن لادن کو خفیہ طور پر معلومات فراہم کر دی تھیں، جس کے نتیجے میں اس نے اپنا دورہ منسوخ کر دیا تھا۔
خوست پر داغے گئے ان کروز میزائل کے فائر سے نوے منٹ قبل امریکی فوج نے پاکستانی حکام کو اس لیے مطلع کر دیا تھا تاکہ اسلام آباد حکومت اسے بھارت کی طرف سے کوئی حملہ نہ سمجھ لے۔
دوسری طرف اس دور کے کئی اعلیٰ امریکی اہلکاروں نے اس الزام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضروری نہیں کہ کسی نے طالبان باغیوں کو معلومات پہلے سے ہی فراہم کر دی تھیں بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ افریقہ میں حملوں کے بعد تب اسامہ بن لادن بہت زیادہ محتاط ہو چکا ہو۔
اس مرتبہ امریکی خفیہ ایجنسی نے ایبٹ آباد میں آپریشن سے قبل پاکستانی حکام کو مطلع نہ کیا اور انہیں کامیابی ملی۔ بہرحال اب اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے بعد یہ سوال پھر سے شدید بحث اختیار کر گیا ہے کہ مستقبل میں پاکستانی اور امریکی خفیہ اداروں کے مابین تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی۔
اس نازک وقت میں سی آئی اے کی اعلیٰ قیادت میں تبدیلی کے باعث معاملات اور بھی زیادہ پیچیدہ معلوم ہو رہے ہیں۔ سی آئی اے کے نئے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا اہم کام پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ساتھ ڈیل کرنا ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے مابین تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ اطراف میں پائی جانے والی بد اعتمادی کو دیکھتے ہوئے صدر اوباما کے سابق مشیر بروس ریڈل کا کہنا ہے، ’میرے خیال میں یہ بہت ہی مشکل تعلقات ہوں گے‘۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک