1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: سیاسی بحران میں شدت کے امکانات

عبدالستار، اسلام آباد
24 جنوری 2023

قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کے مستعفی اراکین کے استعفے قبول کر لیے گئے ۔ ن لیگ اس فیصلے پر شادیانے بجارہی ہے جب کہ پی ٹی آئی اس فیصلے پر احتجاج کررہی ہے۔ کیا سیاسی بحران بڑھے گا؟

Pakistan Parlament Nationalversammlung in Islamabad
تصویر: AP

قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کے مستعفی اراکین کے استعفے قبول کیے جانے پر ملک کے مختلف حلقوں اور سیاسی مبصرین اور ماہرین کی طرف سے ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے۔ اس قسم کے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا ملک مزید مظاہروں اور بحران کی طرف بڑھ رہا ہے؟  پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری پر ن لیگ اور حکومتی حلقے تو خوشی منا رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی اس فیصلے پر احتجاج کررہی ہے اور مزید مظاہروں کا ارادہ رکھتی نظر آرہی ہے۔

خوشی اور غصے کے اس ماحول میں سیاسی مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ حکومت عملیت پسندی اور سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرے۔ ان کے خیال میں اسپیکر کے اس فیصلے سے ملک ایک نئے سیاسی بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔

تجزیہ نگاروں اور سیاستدانوں کا خیال ہے کہ حکومت کو پاکستان تحریک انصاف کی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوئے، انہیں پارلیمنٹ میں آنے سے نہیں روکنا چاہیے تھا اور مذاکرات کے لیے کمیٹی بنا کر نگراں حکومت  اور دوسرے مسائل کے حوالے سے بات چیت کرنی چاہیے تھی۔

استعفوں کا پس منظر

واضح رہے کہ 17 جنوری کو اسپیکر نے پاکستان تحریکِ انصاف کے 34، بیس جنوری کو پینتیس،  گزشتہ برس جولائی میں گیارہ اوراب 43 استعفے منظور کیے ہیں۔ شیخ رشید کے استعفے کو ملاکر ایک سو تیئیس اراکین کے استعفے منظور ہو چکے ہیں۔

سیاسی بحران بڑھے گا

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے سنگین سیاسی نتائج نکل سکتے ہیں اور ملک میں سیاسی بے یقینی مزید بڑھ سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے پارلیمنٹ میں آنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرتی ہے لیکن اب حکومت کا ارادہ یہ لگ رہا ہے کہ وہ راجہ ریاض  کے ساتھ بات کر کے نگراں سیٹ اپ لے کر آنا چاہتی ہے، جس پربہت سارے سوالات اٹھ جائیں گے۔‘‘

سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی نگراں حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی۔ ''اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی اگلے انتخابات کو بھی تسلیم نہیں کرے گی اور ملک مز ید سیاسی بے یقینی کا شکار ہو جائے گا۔‘‘  

مارچ اور احتجاج: سماجی، سیاسی اور معاشی اثرات

مذاکرات واحد راستہ ہے

یہ صرف تجزیہ نگاروں کی رائے ہی نہیں ہے بلکہ کئی سیاستدان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پی ٹی آئی کے پارلیمنٹ میں واپس آنے کے فیصلے نے اس بات کے امکانات پیدا کر دیے تھے کہ موجودہ بحران کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے لیکن حکومت نے پی ٹی آئی کے اس فیصلے کو تسلیم نہ کرکے سیاسی غلطی کی ہے۔  حکومت کو بعد میں پچھتاوا ہو گا۔‘‘

 کشور زہرہ کے مطابق پی ٹی آئی کے استعفوں کی وجہ سے پارلیمنٹ ویسے ہی آدھی خالی نظر آتی ہے اور قانون سازی کا عمل بالکل سست ہو کر رہ گیا ہے۔ ''اگر اسپیکر پی ٹی آئی والوں کو استعفے واپس لینے دیتے اور اس وقت سے لے کر اگلے انتخابات تک جو بھی قوانین بنتے، ان قوانین کو ایک اخلاقی حیثیت حاصل ہوتی۔ لیکن اتنے زیادہ اراکین کے استعفے قبول کرنے کے بعد پارلیمنٹ سے بننے والے قوانین کی کیا اخلاقی حیثیت رہ جائے گی۔‘‘

کیا پاکستان کا حال بھی سری لنکا جیسا ہو سکتا ہے؟

 اسپیکر کا فیصلہ صحیح ہے

تاہم نون لیگ اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ اسپیکر نے اپنا قانونی اور آئینی حق استعمال کیا ہے اور ان کا فیصلہ کسی طرح بھی سیاسی طور پر غیر دانشمندانہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ پارلیمنٹ کی توقیر میں اضافہ کرنے کے لیے دوبارہ پارلیمنٹ میں نہیں آ رہے بلکہ یہ پارلیمنٹ میں بھی ہلہ گلہ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کی جگ ہنسائی کرانا چاہتے ہیں۔ پہلے استعفے منظور کرنے کے لیے شور کر رہا تھے اور اب منظوری کے خلاف شور کررہے ہیں۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں