1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

استعفوں کی ہلچل: احتساب کا مطالبہ اور سیاسی مداخلت کا الزام

12 جنوری 2024

سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الحسن کے استعفوں کے بعد ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک بھونچال نظر آرہا ہے۔

Supreme Court of Pakistan in Islamabad
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

ان استعفوں پر کئی حلقوں میں تبصرے جاری ہیں۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے گروپ کی صفائی کا عمل ہے، جبکہ کچھ کے خیال میں یہ ذاتی عناد کا شاخسانہ ہے۔ کچھ مبصرین ایسے بھی ہیں جو اس کو سیاسی معاملات سے جوڑ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس اعجاز الحسن کا استعفی بھی منظور کر لیا ہے جنہوں نے یہ استعفٰی جمعرات کو پیش کیا تھا۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے ایک اور جج مظاہر اکبرنقوی نے بھی اپنے عہدے سے استعفٰی دیا تھا۔ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت آئی تھی اور انہیں اس شکایت کے حوالے سے شو کاز نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔

وکلا کی ایک بڑی تعداد ان استعفوں کو اس احتسابی عمل کا حصہ قرار دیتی ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سیاست دان اور نوکر شاہی کے افراد بارگین کر کے مقدمے سے جان چھڑا لیتے ہیں جبکہ طاقتور حلقوں کے افراد قومی سلامتی کے نام پر احتساب سے بچ جاتے ہیں۔ اب کئی ناقدین یہ کہہ رہے ہیں کہ جج استعفی دے کر احتساب سے بچ رہے ہیں۔

الزامات کا سامنا کریں

پاکستان جوڈیشل کونسل کے رکن راہب بلیدی کا کہنا ہے کہ بلوچستان بار کونسل اور دوسری بار کونسلز نے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف شکایت دی تھی اور یہ کہ وہ اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے۔ راہب بلیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے خیال میں ان کے خلاف سنگین الزامات تھے اور اس حوالے سے انہیں شو کاز نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔ بجائے اس کے کہ وہ شو کاز نوٹس کا جواب دیتے اور اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا سامنا کرتے انہوں نے استعفٰی دے دیا۔‘‘

راہب بلیدی کے مطابق دونوں ججوں کو الزامات کا سامنا کرنا چاہیے۔ ''آخر سیاستدان اور عوامی نمائندے بھی تو الزامات کا سامنا کرتے ہیں اور سزائیں بھی بھگتتے ہیں تو کیا جج مقدس گائیں ہیں؟

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس اعجاز الحسن کا استعفی بھی منظور کر لیا ہےتصویر: Mehmet Eser/AA/picture alliance

سپریم کورٹ  بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر اور بلوچستان کے نگران وزیر برائے قانون امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں احتساب کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے انکوائری کے ڈر سے استعفے دیے ہیں لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ اس کے باوجود بھی انکوائری کا عمل جاری رہے گا۔‘‘

امان اللہ کنرانی کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے احتساب کا عمل شروع کر کے ایک بہت اچھی مثال قائم کی ہے۔ '' اب حقائق کو سامنے لایا جائے اور اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل نے اشارہ دیا ہے کہ وہ انکوائری ختم نہیں کرے گی، جو بہت مثبت قدم ہے۔‘‘

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمعیہ راحیل قاضی کا کہنا ہے کہ اگر جسٹس فائز عیسی  اور جسٹس شوکت صدیقی نے الزامات کا سامنا کیا ہے تو یہ الزامات کا سامنا کیوں نہیں کر سکتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میرے خیال میں انہیں الزامات کا سامنا بھی کرنا چاہیے اور  سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو اپنے اثاثے بھی ظاہر کرنے چاہییں۔ اس کے علاوہ جن ججوں نے فوجی آمروں کو ریلیف دی ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے اور جنہوں نے ان ادوار میں مال بنایا ان کو بھی عوام کے سامنے جواب دہ ہونا چاہیے۔‘‘

سیاسی معاملہ

تاہم چند دیگر مبصرین کے خیال میں یہ احتسابی عمل سے زیادہ سیاسی معاملہ ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الحسن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ نواز شریف کے مخالف ہیں۔ اسی لیے انہیں استفعے پہ مجبور کیا گیا ہے۔ مزید استعفے بھی آئیں گے جو پاکستان کی عدلیہ کے لیے مناسب نہیں ہوگا۔‘‘

پاکستان میں کسی ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس

02:24

This browser does not support the video element.

جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مطابق ملک میں حالات اس طرح کے پیدا کر دیے گئے ہیں جس میں غالباً ان ججوں کو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ انہیں انصاف نہیں ملے گا۔ ''جسٹس مظاہر اکبر نقوی کا یہ اعتراض صحیح تھا کہ چیف جسٹس فائزعیسی کو اپنے آپ کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے علیحدہ کر لینا چاہیے کیونکہ انہوں نے مظاہر نقوی کی تقرری کی مخالفت کی تھی۔‘‘

پاکستان میں وکلا کو ہمیشہ سے اپنے حقوق کے لایے لڑنا پڑتا رہا ہےتصویر: AO

جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مطابق اصولاً جب اعتراض اٹھایا جاتا ہے تو ججز خود بخود اس طرح کے معاملات سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ '' لیکن ایسا نہیں ہوا جبکہ مظاہر نقوی کو سپریم کورٹ کی بینچ سے بھی کوئی اچھا ریسپانس نہیں ملا۔‘‘

بندیال گروپ کی صفائی

سپریم کورٹ کی ایک سینیئر خاتون وکیل نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال کے گروپ کی صفائی ہو رہی ہے۔ ان دونوں ججوں کا تعلق اسی گروپ سے تھا اس لیے انہیں استفعٰی دینے پر مجبور کیا گیا۔ مزید استفعے بھی آنے والے دنوں میں متوقع ہیں۔‘‘

انکوائری کی حیثیت

ججوں کے خلاف انکوائری کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات پر بھی مختلف آرا ہیں۔ راہب بلیدی کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اپنی انکوائری جاری رکھ سکتی ہے اور یہ درخواست کر سکتی ہے کہ ان استعفوں کو منظور نہ کیا جائے۔

’یہ حکومت بھی توہین مذہب کے معاملے کو نظر انداز کر رہی ہے‘

03:14

This browser does not support the video element.

تاہم جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ کونسل کا دائرہ اختیار صرف یہ ہے کہ وہ کسی جج کے خلاف انکوائری کر کے الزامات کو یا منظور کرے یا رد کرے۔ وہ کہتے ہیں، ''اگر الزامات صحیح ہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل صدر کو ایسے جج کی ملازمت سے برخاستگی کی سفارش کر سکتی ہے لیکن یہاں تو جج پہلے ہی اپنے عہدے چھوڑ چکے ہیں تو ایسے میں کونسل مزید کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘

دوسرے ادارے ایکشن لے سکتے ہیں

جسٹس  وجیہہ الدین احمد کے مطابق نیب، ایف آئی اے یا کوئی دوسرا ادارہ ان مستعفی ججوں کے خلاف اگر انکوائری کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ '' اس انکوائری میں انہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جس دوران یہ جج رہے ہیں اس دوران وہ کس طرح کی بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں یا نہیں۔ تاہم دوران ملازمت اگر کسی جج کے خلاف کوئی کاروائی کی جا سکتی ہے تو وہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے دوسرے ادارے ایسا ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد کر سکتے ہیں۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں