1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

پاکستان اور افغانستان فائر بندی میں توسیع پر متفق

جاوید اختر اے پی، اے ایف پی، روئٹرز کے ساتھ
31 اکتوبر 2025

جمعرات کو پاکستان اور افغانستان نے فائر بندی میں توسیع پر اتفاق کیا۔ یہ فائر بندی 19 اکتوبر کو ان جھڑپوں کے بعد نافذ کی گئی تھی، جنہیں حالیہ برسوں کی سب سے خونریز جھڑپیں قرار دیا جا رہا ہے۔

دوحہ میں پاکستانی اور افغان طالبان کے وفد کے درمیان مذاکرات کی تصویر
دونوں فریق 6 نومبر کو دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ ایک مانیٹرنگ میکنزم یا نگرانی کے نظام کو حتمی شکل دی جا سکےتصویر: Qatar MFA

ترکی کی وزارتِ خارجہ کے مطابق اگلے ہفتے استنبول میں مذاکرات کا ایک اور دور ہو گا۔ وزارت نے بتایا کہ دونوں فریق 6 نومبر کو دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ ایک مانیٹرنگ میکنزم یا نگرانی کے نظام کو حتمی شکل دی جا سکے، جو ''امن کے قیام کو یقینی بنائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے فریق پر جرمانہ عائد کرے گا۔‘‘

ترکی اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے یہ مذاکرات اس ہفتے کے آغاز میں تعطل کا شکار ہو گئے تھے، جس کا الزام افغان سرکاری میڈیا نے ''پاکستانی فریق کے غیر معقول مطالبات‘‘ پر عائد کیا تھا۔

دوسری طرف پاکستان نے اس کے لیے افغان طالبان وفد کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا تھا، ''کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے افغان طالبان نے الزام تراشی، توجہ ہٹانے اور بہانے بازی کا سہارا لیا۔‘‘

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی کہ مذاکرات اختتام پذیر ہو چکے ہیں اور کہا کہ افغانستان ''باہمی احترام اور عدم مداخلت کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات‘‘ چاہتا ہے۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایکس پر ترک وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے کو ری پوسٹ کیا ہے۔

پاکستان کا الزام ہے کہ کابل عسکریت پسند گروہوں، خصوصاً ٹی ٹی پی کو پناہ دے رہا ہے، جو افغان سرزمین سے پاکستان میں سرحد پار حملے کرتے ہیںتصویر: AFP

اسلام آباد کا کابل پر عسکریت پسند گروہوں کو پناہ دینے کا الزام

یہ فائر بندی پہلی بار 19 اکتوبر کو اس وقت نافذ کی گئی جب پاکستان نے افغان سرزمین پر پاکستانی طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی حملے کیے، جن کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

اسلام آباد کا الزام ہے کہ کابل عسکریت پسند گروہوں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دے رہا ہے، جو افغان سرزمین سے پاکستان میں سرحد پار حملے کرتے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے اسی ہفتے کہا تھا کہ اگر افغانستان سے مذاکرات ناکام ہوئے تو یہ 'کھلی جنگ‘ کے مترادف ہو گا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا، ''پاکستان کے اندر کسی بھی دہشت گرد حملے یا خودکش بم دھماکے کی صورت میں ''ہم جوابی کارروائی کریں گے۔ ہم ان کا حساب برابر کریں گے۔‘‘

کابل نے پاکستان کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان حملوں کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔

طالبان کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی نے جمعرات کو کہا، ''پاکستان میں کچھ لوگ، دانستہ یا نادانستہ طور پر، آگ اور جنگ سے کھیل رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ افغان ''جنگ نہیں چاہتے‘‘، لیکن کابل کے لیے ''ملک کے دفاع کو ترجیح حاصل ہے۔‘‘

اگرچہ فائر بندی اب تک بڑی حد تک برقرار ہے، لیکن دونوں ممالک کی سرحد بند ہے، جس کی وجہ سے سینکڑوں ٹرک پھنس گئے ہیں اور 2,600 کلومیٹر طویل سرحد پر تجارت معطل ہے۔

طالبان وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ افغان جنگ نہیں چاہتے، لیکن کابل کے لیے ملک کے دفاع کو ترجیح حاصل ہےتصویر: Sanaullah Seiam/AFP

مشترکہ اعلامیہ میں کیا ہے؟

جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ترک وزارت خارجہ نے ترکی اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ فریقین نے جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ 'تمام فریقین نے جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد پر اتفاق کیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ معاہدے پر 'عمل درآمد کی مزید تفصیلات پر بات چیت اور حتمی فیصلہ 6 نومبر 2025 کو استنبول میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا جائے گا۔‘

ترک وزارت خارجہ کے مطابق فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ 'ایک نگرانی اور تصدیقی نظام وضع کیا جائے گا جو امن کے تسلسل کو یقینی بنائے گا اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریق پر سزا عائد کرے گا۔‘

ادارت: رابعہ بگٹی

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں