استنبول بم دھماکا: ہلاک ہونے والے دس سیاحوں میں نو جرمن
12 جنوری 2016ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولو کے دفتر کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ استنبول کے گنجان آباد اور تاریخی علاقے سلطان احمد میں ہونے والے اس بم دھماکے میں نو جرمن شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ ترکی کے مقامی میڈیا کے مطابق ترک وزیراعظم نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے بھی ٹیلیفونک گفتگو کی ہے اور انہیں صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ قبل ازیں جرمن چانسلر کا دارالحکومت برلن میں کہنا تھا، ’’ہم دل کی گہرائیوں سے فکرمند ہیں۔ متاثرین اور زخمیوں میں جرمن شہری بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
ترکی کے نائب وزیراعظم نعمان کُرتَلمُوس نے یہ تو تصدیق کی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں غیرملکی شامل ہیں لیکن انہوں نے ان کی شہریت بتانے سے گریز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشتبہ حملہ آور ایک شامی باشندہ ہے، جو انیس سو اٹھاسی میں پیدا ہوا تھا۔ ان کے مطابق حملے میں دیگر پندرہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں اور ان میں سے دو کی حالت تشویش ناک ہے۔
دریں اثناء ترک وزیراعظم احمد داؤد اولو نے اس خود کش حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ پر عائد کی ہے۔ انہوں نے اِس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف ترکی اپنی مسلح کارروائیاں جاری رکھے گا۔
ناروے کی وزارت خارجہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ زخمیوں میں ایک ان کا شہری بھی شامل ہے۔ ترک سی این این کے مطابق ایک زخمی کا تعلق لاطینی امریکی ملک پیرو سے ہے۔ جرمن وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ ترک حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اپنے شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ استنبول میں ہجوم زدہ علاقوں سے گریز کریں۔
ترکی میں ہونے والا یہ بم دھماکا آج بروز منگل تقریباﹰ دس بج کر پندرہ منٹ پر ہوا تھا اور یہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلومیٹر دور تک سنی گئی تھی۔
ترکی میں گزشتہ برس بھی دو تباہ کن بم حملے ہوئے تھے۔ شامی سرحد کے قریب ترک شہر سوروچ میں گزشتہ برس جولائی میں ہونے والے بم دھماکے میں تیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ اکتوبر میں دارالحکومت انقرہ کے مرکزی ٹرین اسٹیشن کے باہر ہونے والے دوہرے خودکش حملے کے نتیجے میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ پر عائد کی گئی تھی۔