استنبول: رمضان ميں چھوٹے کپڑے پہننے پر لڑکی کی ہو گئی پٹائی
21 جون 2017يونيورسٹی کی طالبہ اسينہ ميليسا سگلام استنبول کی ايک بس پر سوار تھيں کہ ان کے پيچھے والی سيٹ پر بيٹھے ايک شخص نے ان کے چہرے پر وار کيا۔ اس واقعے کے مناظر ترک ذرائع ابلاغ پر گردش کر رہے ہيں۔ اسينہ نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے متعلقہ شخص کا سامنا کرنا چاہا اور اسے پکڑنا چاہا، تو وہ اسينہ کو بس کے پچھلے حصے کی طرف دھکيل کر فرار ہو گيا۔ اکيس سالہ یونیورسٹی طالبہ اسینہ نے بتايا کہ تشدد کا نشانہ بنانے سے قبل بھی مذکورہ شخص پورے راستے ان پر طعنے کستا رہا تھا۔ اس شخص کو اس بات پر اعتراض تھا کہ اسينہ نے ماہ رمضان ميں ’شارٹس‘ يا نیکر پہنی ہوئی تھی۔
واقعے کے بعد متعلقہ شخص کو حراست ميں لے ليا گيا تھا تاہم بعد ازاں اسے رہا کر ديا گيا۔ تفتيش کے دوران اس نے يہ موقف اختيار کيا کہ اسے ايسا کرنے پر ’اکسايا‘ گيا تھا۔ عورتوں کے حقوق کے ليے سرگرم ايک ادارے نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ پيغام ميں لکھا، ’’متعلقہ شخص کی رہائی تمام عورتوں کے ليے خطرہ ہے۔ ہم جو چاہے کپڑے پہنيں گے اور اپنی آزادی ترک نہيں کريں گے۔‘‘ بعد ازاں ايسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہيں کہ احتجاج کے بعد متعلقہ شخص کو دوبارہ حراست ميں ليے جانے کے احکامات جاری کر ديے گئے ہيں ليکن تاحال يہ واضح نہيں کہ ايسا ہو سکا ہے يا نہيں۔
اسينہ نے ايک مقامی اخبار سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’ميں جس لمحے بس ميں بيٹھی، اسی وقت سے وہ مجھے باتيں سناتا رہا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ کيا مجھے شرم نہيں آتی رمضان ميں ايسے کپڑے پہننے پر۔‘‘ اسينہ کے بقول اس نے ميوزک سن کر اس کی بات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی اور پھر اس شخص نے اس کے چہرے پر طماچہ دے مارا۔
ترک صدر رجب طيب ايردوآن کے سياسی مخالفين کا کہنا ہے کہ حکومتی پاليسياں ملک کو ايک سيکولر رياست سے ايک قدامت پسند معاشرے کی طرف دھکيل رہی ہيں۔