استنبول مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار کابل ، پاکستانی وزیر
29 اکتوبر 2025
پاکستان نے بدھ کے روز کہا کہ افغانستان کے ساتھ پائیدار جنگ بندی کے لیے استنبول میں ہونے والے مذاکرات ''کسی قابلِ عمل حل تک پہنچنے میں ناکام رہے‘‘ اور خبردار کیا کہ وہ اپنے عوام کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گا۔
استنبول مذاکرات کا مقصد جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک کے درمیان کئی برسوں بعد ہونے والی خونریز سرحدی جھڑپوں کے بعد امن بحال کرنا تھا۔ یہ جھڑپیں 9 اکتوبر کو کابل میں ہونے والے دھماکوں کے بعد شروع ہوئیں جن کا الزام طالبان حکام نے پاکستان پر عائد کیا۔ ان جھڑپوں میں 70 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والے چار روزہ مذاکرات کے بعد سماجی پلیٹ فارم ایکس پر تحریر کیا، ''افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی، اصل معاملے سے ہٹتا رہا اور الزام تراشی، گمراہ کن باتوں اور چالوں میں مصروف رہا۔ یہ مذاکرات اس طرح کسی قابلِ عمل حل تک نہیں پہنچ سکے۔‘‘
یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب دونوں ممالک کے سرکاری میڈیا نے مذاکرات میں تعطل کی اطلاع دی اور ایک دوسرے پر ناکامی کی ذمہ داری ڈال دی۔
کابل کی جانب سے تاحال تارڑ کے بیان پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
پاکستانی وزیر نے مزید کیا کہا؟
استنبول میں 25 اکتوبر کو شروع ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کے حوالے سے پاکستانی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے کہا، ''پاکستان نے کافی اور ناقابلِ تردید شواہد فراہم کیے، جو افغان طالبان اور میزبانوں نے تسلیم کیے، تاہم افسوس کہ افغانستان نے کوئی یقین دہانی فراہم نہیں کی۔ افغان حکام بار بار گفتگو کے بنیادی مسئلے سے ہٹتے رہے اور اس اہم نکتے سے گریز کرتے رہے، جس پر یہ مکالماتی عمل شروع کیا گیا تھا۔‘‘
تارڑ کا کہنا تھا،''کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے افغان طالبان نے الزام تراشی، توجہ ہٹانے اور بہانے بازی کا سہارا لیا۔ نتیجتاً یہ مذاکرات کسی قابلِ عمل حل تک نہیں پہنچ سکے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے برادر ممالک قطر اور ترکی کی درخواست پر امن کا موقع دیا اور افغان طالبان حکومت کے ساتھ پہلے دوحہ اور پھر استنبول میں بات چیت کی۔
انہوں نے طالبان پر الزام عائد کیا کہ وہ ''پاکستان کے نقصان سے بے پرواہ‘‘ رہے حالانکہ ''پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے امن و خوشحالی کے لیے خواہش رکھی، اس کی حمایت کی اور اس مقصد کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔‘‘
تارڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات جاری رکھے گا، اور دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں، سہولت کاروں اور مددگاروں کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔
افغانستان کا ردعمل
پاکستانی وزیر کے بیان پر افغانستان کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
تاہم افغانستان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانع نے منگل کے روز کہا کہ کسی بھی حملے کا جواب ایسے انداز میں دیا جائے گا ''جو پاکستان کے لیے سبق اور دوسروں کے لیے پیغام ہو گا۔‘‘
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہفتے کو خبردار کیا تھا کہ معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی 'کھلی جنگ‘ کا باعث بن سکتی ہے۔
قانع نے افغان میڈیا ادارے آریانا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ سچ ہے کہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں، لیکن نیٹو اور امریکہ بھی 20 سال کی جنگ کے باوجود افغانستان کو زیر نہیں کر سکے۔‘‘
افغانستان کے سرکاری میڈیا 'آر ٹی اے‘ نے پاکستانی حکام کے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ طالبان کا وفد ''پاکستان کی تجاویز قبول کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں تھا‘‘۔ کابل نے اسی طرح کے الزامات پاکستان پر عائد کیے اور کہا،''ہم نے تعمیری مذاکرات کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن پاکستانی فریق کے پاس اس نیت کا کوئی مظاہرہ نہیں تھا۔‘‘
کیا اب بھی کوئی امید باقی ہے؟
ان دونوں ممالک کے درمیان، جو ایک وقت میں اتحادی تھے اور 2,600 کلومیٹر طویل سرحد رکھتے ہیں، تعلقات گزشتہ چند برسوں میں خراب ہوئے ہیں۔
پاکستان الزام عائد کرتا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں بھارتی سرپرستی حاصل ہے، تاہم کابل اور نئی دہلی اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
افغان طالبان پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو اس کے اندرونی مسائل سے جوڑتے ہیں اور اسلام آباد کو ان پر توجہ دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تمام سرحدی گزرگاہیں دو ہفتوں سے زائد عرصے سے بند ہیں، اور تجارتی سامان لے جانے والے ٹرک اہم تجارتی راستوں کے دوبارہ کھلنے کے انتظار میں پھنسے ہوئے ہیں۔
جب ترکی میں مذاکرات کا تازہ دور جاری تھا تو اتوار کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی کو بہت جلد دور کرنے میں مدد کریں گے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ