استنبول میں شامی بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششیں
27 اکتوبر 2018
ترک شہر استنبول میں جرمن چانسلر کے ساتھ ساتھ ترکی، روس اور فرانس کے صدور ایک اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ ان رہنماؤں کی بات چیت کا مقصد شامی بحران کا دیرپا حل تلاش کرنا ہے۔
اشتہار
ترکی کی میزبانی میں شام کے موضوع پر چار فریقی سربراہی اجلاس استنبول میں شروع ہو گیا ہے۔ اس اجلاس کا مقصد جنگ سے تباہ حال ملک شام کے بحران کا کوئی سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔ اس دوران انسانی بنیادوں پر جاری کارروائیوں اور امداد میں اضافے کے علاوہ شام میں باغیوں کے آخری سب سے بڑے گڑھ ادلب میں فائر بندی کے نازک معاہدے میں توسیع جیسے موضوعات پر بھی تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔
اس اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے میزبان صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا، ’’آج دنیا کی نظریں ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم خلوص کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک تعمیری اتفاق پر پہنچیں گے اور عالمی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام نہیں ہوں گے۔‘‘ اس موقع پر ایردوآن نے اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئل ماکروں، روسی صدر ولادی میر پوٹن اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو استنبول پہنچنے پر خوش آمدید کہا۔
ماہرین کی خیال میں ایک بڑا مسئلہ اس اجلاس میں شریک رہنماؤں کی شامی صدر بشارالاسد کے حوالے سے اختلافِ رائے ہے۔ روس صدر اسد کی حمایت کرتا ہے جبکہ دوسری جانب جرمنی، فرانس اور ترکی کا شمار اسد مخالفین میں ہوتا ہے۔ تاہم اس دوران روس اور ترکی ادلب اور اس کے ارد گرد بفر زون قائم کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔
شامی تنازعہ میں برسر پیکار قوتیں
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سن 2011ء کے عرب اسپرنگ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے مختلف حریف گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت شام میں کون سی قوتیں طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں؟
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شام کے مسلح گروہ
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈکٹیٹر
شامی افواج جسے شامی عرب افواج ، ایس ایس اے، کے نام سے جانا جاتا ہے، ملکی صدر بشار الاسد کی وفا دار ہے اور پورے ملک پر بشار الاسد کی حکومت ایک بار پھر بحال کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس فورس جیسی ملیشیا ، روس اور ایران کے عسکری ماہرین کی مشاورت شامل ہے۔
ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور اس وقت شامی جنگ میں صدر بشار الاسد کے حریف باغیوں کے گروپ کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی جنوبی ادلب اور افرین صوبوں میں باغیوں کے ہمراہ کارروائیوں میں ساتھ دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
مشرقی محافظ
روس بشار الاسد کا طاقتور دوست ثابت ہو رہا ہے۔ ستمبر 2015 میں روسی فضائیہ اور زمینی افواج نے باقاعدہ طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ روس کی اس خانہ جنگی میں شمالیت اب تک بشار الاسد کے حق میں ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
مغربی اتحادی
امریکا نے 50 ممالک کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سن 2014ء سے اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت امریکا کے ایک ہزار سے زائد خصوصی دستے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A.Brandon
مزاحمت کار
شامی کردوں اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہا ہے جو کرد اور عرب ملیشیا کا بھی اتحادی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Sik
نئے جہادی
اسلامک اسٹیٹ نے خطے میں جاری افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر سن 2014ء میں قبضہ جما لیا تھا اور وہاں خلافت قائم کرنا چاہی۔ تاہم اب روس اور امریکی فوجی مداخلت کے بعد ان کو دونوں ممالک میں شکست فاش ہوئی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
پرانے جہادی
اسلامک اسٹیٹ وہ واحدگروپ نہیں جو شام میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اس تنازعہ میں الاسد حکومت اور باغیوں کے کئی گروہ شامل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی تنظیم حیات التحریر الاشام بھی ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں اور جس نے صوبے ادلب کے بشتر حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nusra Front on Twitter
8 تصاویر1 | 8
اس سے قبل ترکی، ایران اور روس کے صدور شام کے موضوع پر ملاقات کرتے رہے ہیں تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس طرح کے کسی اجلاس میں یورپی یونین کے دو با اثر ممالک جرمنی اور فرانس کے رہنما بھی شریک ہیں۔ استنبول میں اجلاس شروع ہونے سے قبل جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترک صدر ایردوآن اور روسی صدر پوٹن کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی تھیں۔ اس کے علاوہ میرکل اور ماکروں کے درمیان بھی شام کے موضوع پر بات چیت ہوئی تھی۔
2011ء میں شروع ہونے والے شامی بحران میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ساتھ ہی بمباری کی وجہ سے شام کے متعدد شہروں کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور یہ شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
ادلب کے شہری بدترین حالات کے لیے تیاریوں میں مصروف