استنبول: 2010ء میں یورپی ثقافتی دارالخلافہ
6 جنوری 2010یورپی ثقافتی دارالخلافہ ہونے کا اعزاز جہاں کسی بھی شہر کے لئے باعثِ افتخار ہو سکتا ہے، وہیں یہ ایک بھاری ذمہ داری بھی ہے کیونکہ اگر کوئی شہر خود کو اور اپنی ثقافتی میراث کو اچھی طرح سے باقی دُنیا کے سامنے پیش نہ کر سکے تو یہ اعزاز اُلٹا شرمندگی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
ترکی میں ’’استنبول دو ہزار دَس‘‘ منصوبے کے لئے الگ سے ایک کلچرل کیپیٹل ایجنسی قائم کی گئی۔ اِسی ایجنسی کی کوششوں سے مشہور مسجد ’’حاجیہ صوفیہ‘‘ کی تزئین و مرمت عمل میں لائی گئی، جو ترکی کے اقتصادی اور ثقافتی مرکز استنبول کی پہچان ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ترک سلطانوں کے پرانے محل کو بھی خوبصورت طریقے سے سجایا گیا۔ آثارِ قدیمہ کا ایک پارک بنایا گیا ہے، ایک قدیم اور ویران یہودی عبادت خانے کو نئے سرے سے تیار کیا گیا ہے اور ایک آرمینیائی گرجا گھر کو ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت دے کر ترکی اور دُنیا بھر سے جانے والے سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ دو نئے عجائب گھر قائم کئے گئے ہیں، جن میں سے ایک استنبول کے نوبل انعام یافتہ ادیب اورہان پامُوک کے لئے مخصوص ہے جبکہ دوسرے کو ترک فلموں کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔
یہ ساری باتیں سال دو ہزار نو کے آخری مہینے دسمبر کی گیارہ تاریخ کو استنبول کے ہلٹن ہوٹل میں منعقدہ ایک افتتاحی تقریب میں بتائی گئی تھیں۔ اِس تقریب کے میزبان نے تب کہا:''استنبول شہر اپنی ایک الگ تاثیر رکھتا ہے۔ یہ خاص اور منتخب لوگوں کا شہر ہے اور کون جانتا ہے کہ یہ لوگ ابھی اور کیسے کیسے ناول، ڈرامے، اوپیراز، بالَیٹ اور دیگر بہت کچھ تخلیق کر سکتے ہیں۔ کسے معلوم ہے کہ ابھی یہاں کس طرح کی فلمیں بنیں گی اور دیگر کون سے فنی نمونے وجود میں آئیں گے، جو ہمیں سحر میں مبتلا کریں گے اور نئی تحریک دیں گے۔ اِس لئے ہم آج کی اِس تقریب میں شامل فنکاروں کا خاص طور پر تالیوں سے خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘
آج کے دَور میں دُنیا بھر کےاہم شہر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں شامل ہیں اور ثقافتی دارالخلافے کا اعزاز شہروں کی ساکھ کو بہتر بنانے کا ایک بڑا وسیلہ ہے۔ برسوں پہلے ترکی کے ایک چھوٹے سے گروپ نے اِس اعزاز کے لئے کوششیں شروع کیں۔ اِس گروپ کے ارکان نے برسلز پہنچ کر یورپی یونین کے نمائندوں سے ملاقاتیں کی ، یہاں تک کہ یورپی یونین نے اِس شہر کو یورپی ثقافتی دارالخلافہ نامزد کر دیا۔
اِس سارے عمل میں شروع سے شریک رہے ہیں، زیرہان ادا، جو استنبول کی بِلگی یونیورسٹی میں ثقافتی منصوبہ بندی کے اُستاد ہیں۔ تاہم وہ ثقافتی دارالخلافے کے طور پر اِس شہر کے لئے کی جانے والی منصوبہ بندی سے ہرگز مطمئن نہیں اور اُسے ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہتے ہیں:’’استنبول اپنے ہاں فارمولا وَن ورلڈ ڈرائیورز چیمپئن شپ منعقد کروانا چاہتا ہے، یہاں اولمپک کھیل منعقد ہونے چاہییں، نیٹو کے مکمل اجلاس یہاں منعقد ہوں، استنبول ایک برانڈ نام بن جائے، یہاں کانگریسیں منعقد ہوں، جن میں دُور دُور سے لوگ شرکت کے لئے آئیں۔ یہ سب اچھی باتیں سہی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کرنے کے لئے ثقافتی دارالخلافے کے اعزاز کی آخر کیا ضرورت تھی؟ یہ اعزاز تو کچھ اور مقاصد کے حصو ل کے لئے استعمال ہونا چاہیے تھا۔‘‘
زیرہان ادا کلچرل کیپیٹل دو ہزار دَس کا اعزاز استنبول کو ملنے کے بعد شروع میں پروگراموں کی ترتیب و تشکیل میں شامل رہے لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ اصل مقاصد سے انحراف ہو رہا ہے تو وہ اِس منصوبے سے الگ ہو گئے۔
اُن کا اور اُن کے دیگر ہم خیال ساتھیوں کا خیال ہے کہ اِس اعزاز کے دوران کچھ ایسا ہونا چاہیے تھا کہ استنبول کے بارہ ملین شہریوں کو اکٹھے مل کر اپنی ثقافت کو پیش کرنے اور سارا سال مل جُل کر جشن منانے کے مواقع ملتے۔
اب تک جو گوناگوں پروگرام وضع کئے گئے، اُن میں عوام کی انتہائی قلیل تعداد کو براہِ راست شریک کیا گیا اور یہی وجہ تھی کہ یہ شہری بھی اِن منصوبوں میں کم ہی دلچسپی لے رہے تھے۔ چنانچہ اب کہیں جا کر رنگا رنگ اشتہارات کی مدد سے اِن شہریوں میں بھی تحریک پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: افسر اعوان